’ہیوسٹن کرانیکل‘ اخبار ایک اداریے میں کہتا ہے کہ یہ صحیح ہے کہ ایچ آئی وِی ایڈز کا مرض لاحق ہوجائے تو اُسے اب پھانسی کی سزا سے تعبیر نہیں کیا جاتا، لیکن بہت سے لوگ ابھی بھی اپنا معائنہ کرانے سے ہچکچاتے ہیں جِس کی بڑی وجہ بدنامی اور امتیازی سلوک کا اندیشہ ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ بیماریوں پر قابو پانے اور اُن کے تدارک سے متعلق مراکز کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت 12لاکھ امریکی ایچ آئی وِی ایڈز کے مرض میں مبتلا ہیں۔ اِن میں سے ہر پانچ میں سے ایک شخص اپنی اس بیماری سے بے خبر ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ ٹیکسس امریکہ کے اُن 25شہروں میں سے ایک ہے جہاں ایڈز کے مریضوں کا تناسب زیادہ ہے۔
اِن شہروں نے گیارہ کروڑ ڈالر کے ایک پروگرام میں شرکت کی جِس میں ایچ آئی وِی کے 28لاکھ ٹیسٹ کیے گئے اور تقریباً ساڑھے 18ہزار ایسے افراد کا سراغ لگایا گیا جِنھیں اِس کا پہلے سے علم ہی نہیں تھا کہ وہ ایڈز کے مریض ہیں۔
ایچ آئی وِی کا مرض سب سے زیادہ مُفلس اقلیتوں میں عام ہےاور ہیوسٹن اِس کی زد میں ہے۔ اخبار نے ایچ آئی وِی ٹیسٹنگ تک رسائی کو زیادہ آسان بنانے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا کرنا ایک بڑا کارنامہ ہوگا۔ لیکن، اگر ایچ آئی وِی کے مریضوں کو یہ رسائی حاصل نہ ہو تو پھر نہ صرف اُن کی صحت نقصان اُٹھائے گی، بلکہ جب بالآخر سرکاری سہولتوں میں اُن کا کہیں زیادہ خرچ سے علاج ہوگا تو ٹیکس گزاروں پر اِس کا بھاری بوجھ پڑے گا۔
اخبار ’وال اسٹریٹ جرنل‘ کہتا ہے کہ نام نہاد ’چھ کے ٹولے‘ نے کچھ تجاویز پیش کی ہیں جِن پر غور کرنا فائدہ مند ہوگا۔یہ ٹولہ تین ڈیموکریٹوں اور تین ری پبلیکنوں پر مشتمل ہے جِس کےذمےحکومت کو درپیش قومی قرضے کی حد کو بڑھانے کا کوئی قابلِ عمل حل نکالنا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ اِس ہفتے اُس نے جو منصوبہ پیش کیا ہے اُس کا مقصد10سال کے اندر قومی قرضے میں لگ بھگ 40کھرب ڈالر کی کمی لاناہے۔ اس میں پانچ سو ارب ڈالر کی فوری کٹوتیاں بھی شامل ہیں اور اوبامہ کی صحت کی نگہداشت کے منصوبے میں موجود ایک گراں شرط کوبھی دور کرناشامل ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ اگر مسٹر اوباما قرضے کے بحران سے بچنا چاہتے ہیں تو اُنھیں ٹیلی ویژن پر نہیں آنا چاہیئے اور ایک ذمہ د ار معاہدہ کرنے کے لیے دفتر میں موجود رہنا چاہیئے، ارکانِ کانگریس سے ملنا چاہیئے اور اُن لوگوں کی بات سننی چاہیئے، جِنھیں قومی امور کا زیادہ تجربہ اور گہرا اندازہ ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ اُن کے اپنے حق میں اور ایک حتمی منصوبے کے حق میں بہتر یہی ہوگا کہ وہ خاموش رہنے کی حکمتِ عملی پر کاربند ہوں۔
امریکہ کا تقریباً آدھا حصہ دو ہفتوں سے شدید گرمی کی ایک خطرناک لہر کی لپیٹ میں ہے جِس میں اب تک دو درجن سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
اخبار’ نیو یارک ٹائمز‘ کے مطابق، ابھی مزید چند روز تک دورجہٴ حرارت حبس کے ساتھ ساتھ نہایت ہی گِرا رہے گا۔
اخبار کہتا ہے کہ بعض موسم کے پیش گوئی کرنے والوں نے اِس اندیشے کا اظہار کیا ہے کہ اِس گرمی سے جو نقصان ہوا ہے وہ سنہ 1995 کے موسمِ گرما کی گرمی کی لہر سے زیادہ ہوگا۔
اُس سال، شکاگو میں اِس قدر گرمی پڑی تھی کہ 700سے زیادہ افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے اور گرمی کے تین روز کے دوران ہزاروں افراد اسپتالوں میں داخل کیے گئے تھے۔
اخبار کہتا ہے کہ بہت سی امریکی ریاستوں میں صحت کی نگہداشت سے متعلقہ عہدے دار شہریوں کو مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ بہت سا پانی پئیں، مکان کے اندر رہیں یا ٹھنڈا کرنے کے مراکز میں جائیں اور اپنے بزرگ پڑوسیوں اور عزیزوں کا خاص خیال رکھیں۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: