امریکی اخبارات سے: بد سے بدتر ہوتی افغان جنگ

گزشتہ 11 برسوں میں افغانستان میں آخر ایسا کون سا ہفتہ گزرا ہے جسے پرامن کہا جاسکے: ’شکاگو ٹربیون‘ کا سوال
امریکی اخبار 'شکاگو ٹربیون' نے افغانستان کے بد سے بدتر ہوتے حالات پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے افغان جنگ کو ایک ایسی جنگ قرار دیا ہے جس کا خاتمہ ہوتا نظر نہیں آتا۔

Your browser doesn’t support HTML5

امریکی اخبارات سے: 13 جولائی 2012ء



اخبار نے لکھا ہے کہ رواں ہفتہ افغانستان میں پرتشدد واقعات اور ہلاکتوں کے اعتبار سے بدترین رہا لیکن سوال یہ ہے کہ گزشتہ 11 برسوں میں افغانستان میں آخر ایسا کون سا ہفتہ گزرا ہے جسے پرامن کہا جاسکے؟

'شکاگو ٹربیون' لکھتا ہے کہ افغانستان میں رواں برس اب تک 176 امریکی فوجی ہلاک ہوچکے ہیں جب کہ 2001ء سے جاری افغان جنگ اب تک دو ہزار سے زائد امریکی فوجی نگل چکی ہے۔ پندرہ ہزار سے زائد امریکی فوجی اب تک اس جنگ میں زخمی ہوئے ہیں۔

اخبار لکھتا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب امریکہ کے پاس اپنے ضروری سرکاری اخراجات کے لیے بھی فنڈز کم پڑ رہے ہیں، امریکی حکومت افغانستان میں پانچ کھرب ڈالر خرچ کرچکی ہے ۔ لیکن بظاہر امریکہ کی یہ تمام قربانیاں رائیگاں لگتی ہیں کیوں کہ قیامِ امن کی تمام تر کوششوں کے باوجود افغانستان میں عام شہریوں کی ہلاکت میں تین گنا تک اضافہ ہوچکا ہے۔

'شکاگو ٹربیون' کے مطابق افغانستان کے حالات جس طرح بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں اس کے پیشِ نظر بعید نہیں کہ کچھ عرصے بعد لوگ موجودہ حالات کو یاد کریں اور ان کے لوٹنے کی دعائیں مانگیں۔
2001ء سے جاری افغان جنگ اب تک دو ہزار سے زائد امریکی فوجی نگل چکی ہے۔ پندرہ ہزار سے زائد امریکی فوجی زخمی ہوئے ہیں



اخبار لکھتا ہے کہ امریکی تاریخ کی اس طویل ترین جنگ کے بعد 2014ء میں امریکی فوج افغانستان سے نکل جائے گی۔ لیکن امریکی انخلا کے مخالفین کہتے ہیں کہ انخلا کے نتیجے میں افغانستان میں حاصل کی گئی کامیابیاں خطرے میں پڑ جائیں گی جنہیں برقرار رکھنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ امریکہ طویل عرصے تک خطے میں اپنی موجودگی بر قرار رکھے۔

لیکن اخبار نے سوال کیا ہے کہ آخر یہ خوش گمانی کیوں کی جائے کہ افغانستان میں مزید 11 برس ٹہرنے کے بعد بھی امریکہ بالآخر وہ مقاصد حاصل کر سکے گا جو گزشتہ 11 برسو ںمیں حاصل نہ ہوسکے۔

'شکا گو ٹربیون' نے لکھا ہے کہ امریکہ ماضی میں بھی بھاری رقم خرچ کرکے، ہزاروں جانیں گنوا کے ایک ایسے ملک میں ایماندار، اہل، جمہوری حکومت کے قیام کی ناکام کوشش کرچکا ہے جسے مزاحمت کاروں نے یرغمال بنا رکھا تھا۔ اخبار کے مطابق یہ تجرِبہ ویتنام میں بھی ناکام ہوا تھا اور اب افغانستان میں بھی اس کی کامیابی کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔

اخبار نے لکھا ہے کہ کیسا المیہ ہے کہ افغان صدر حامد کرزئی اور ان کی سیکیورٹی فورسز پیش بہا عالمی امداد اور اعانت کے باوجود کوئی موثر کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں اور طالبان جنہیں محض پاکستان کی محدود مدد حاصل ہے قابلِ رشک کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

اخبار نے لکھا ہے کہ اگر ہم نے افغان جنگ سے کچھ نہ بھی پایا ہو تو ایک سبق یقیناً حاصل کیا ہے۔ وہ سبق یہ ہے کہ افغانستان میں وہ تبدیلی لانا امریکہ کے بس میں نہیں جسے ہمارے خیال میں افغانستان کو ضرورت ہے۔


'عرب اسپرنگ' یا اسلام پسندوں کا عروج؟

اخبار 'واشنگٹن پوسٹ' نے لیبیا میں ہونے والے حالیہ انتخابات میں اعتدال پسند اور مغرب نواز جماعت کی کامیابی پر اطمینان ظاہر کرتے ہوئے اسے ایک اچھی خبر قرار دیا ہے۔

اخبار نے لکھا ہے کہ لیبیا نے 'عرب اسپرنگ' سے متاثر ہونے والے خطے کے دیگر مسلم ممالک سے ہٹ کر مثال قائم کی ہے جہاں سب جگہ انتخابات کے نتیجے میں اسلام پسند اقتدار میں آگئے ہیں۔

'واشنگٹن پوسٹ' لکھتا ہے کہ تیونس اور مراقش کو عرب دنیا کے سب سے جدید اور مغرب سے ہم آہنگ معاشرے سمجھا جاتا ہے لیکن حالیہ انتخابات کے نتیجے میں ان دونوں ممالک میں اسلام پسندحکومتیں قائم ہوگئی ہیں۔

عرب دنیا کے سب سے بڑے اور بااثر ملک مصر میں 'اخوان المسلمون' جیسی نظریاتی جماعت نہ صرف صدارتی انتخاب جیت گئی ہے بلکہ اس نے پارلیمان کی بھی نصف نشستیں حاصل کرلی ہیں۔ پارلیمان کی دیگر 25 فی صد نشستوں پر 'سلفی' کامیاب ہوئے ہیں جو اخوان سے بھی زیادہ سخت گیر نظریات رکھتے ہیں۔

یوں اسلام پسندوں کو مصری پارلیمان میں 70 فی صد کی فیصلہ کن اکثریت حاصل ہوگئی ہے جس نے ملک کی طاقت ور فوج کو پریشان کردیا ہے۔

'واشنگٹن پوسٹ' کے مطابق اگر شام میں صدر بشار الاسد کی حکومت ختم ہوئی تو انتخابات کے نتیجے میں لامحالہ اخوان المسلمون ہی کامیاب جماعت کی حیثیت سے ابھرے گی جس کے بعد امکان ہے کہ اردن بھی اسلام پسندوں کی جھولی میں جا گرے گا۔

اخبار کے مطابق اخوان کا فلسطینی دھڑا یعنی حماس پہلے ہی غزہ کی پٹی پر حکمرانی کر رہا ہے۔لہذا اس تناظر میں عرب دنیا کی حالیہ سیاسی تبدیلیوں کو 'عرب اسپرنگ' کا نام دینا درست نہیں بلکہ یہ سیدھا سیدھا اسلام پسندوں کا عروج ہے ۔ اور امکان ہے کہ اسلام پسند کم از کم آئندہ ایک نسل تک عرب دنیا کے سیاسی افق پر چھائے رہیں گے۔
ایک بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ 'عرب اسپرنگ' کے نتیجے میں عرب قوم پرستی کا نظریہ دفن ہوگیا ہے اور اس کی جگہ اسلام نے سنبھال لی ہے
واشنگٹن پوسٹ


اخبار نے لکھا ہے کہ اب عرب دنیا کا مستقبل اس بات پر منحصر ہے کہ اسلام پسند اپنے لیے کس راستے کا انتخاب کرتے ہیں؟ ترکی کا جدید سیاسی اسلام یا ایران کی کٹھ ملائیت؟

'واشنگٹن پوسٹ' لکھتا ہے کہ گوکہ ترک حکومت کو اس کی بڑھتی ہوئی آمرانہ روش کے باعث ایک مثال تو نہیں بنایا جاسکتا لیکن بہر حال وہ اپنے پڑوسی ممالک کی نسبت زیادہ جمہوری اور مغرب نواز ملک ہے۔ اس کے برعکس سخت گیر اسلام کا تجربہ ہر جگہ ناکام ثابت ہوا ہے چاہے وہ افغانستان کا طالبان دور ہو، ایران ہو یا سوڈان۔

اخبار نے لکھا ہے کہ فی الوقت ایک بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ اس 'عرب اسپرنگ' کے نتیجے میں عرب قوم پرستی کا نظریہ دفن ہوگیا ہے اور اس کی جگہ اسلام نے سنبھال لی ہے۔ تلخ سہی لیکن حقیقت یہی ہے۔