امریکی اخبارات سے: دمشق حملہ اور امریکی ایتھلیٹس کی وردیاں

صدر بشار الاسد نے گزشتہ 17 ماہ سے اپنے ہی عوام کے خلاف جو خونی جنگ چھیڑ رکھی تھی بالآخر وہ ان کی دہلیز تک آپہنچی ہے: نیو یارک ٹائمز
امریکہ کے تمام بڑے اخبارات نے شامی باغیوں کی جانب سے دارالحکومت دمشق میں بدھ کو کیے گئے اس حملے کے بارے میں اداریے اور مضامین شائع کیے ہیں جس میں شامی وزیرِ دفاع سمیت تین فوجی جنرل ہلاک ہوگئے تھے۔

Your browser doesn’t support HTML5

امریکی اخبارات سے: 19 جولائی 2012ء



'نیو یارک ٹائمز' نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ طاقت کے نشے میں چور شامی صدر بشار الاسد نے گزشتہ 17 ماہ سے اپنے ہی عوام کےخلاف جو خونی جنگ چھیڑ رکھی تھی بالآخر وہ ان کی دہلیز تک آپہنچی ہے۔

بدھ کو کیے گئے حملے کی نوعیت تاحال واضح نہیں ہے۔ سرکاری ٹی وی اسے خود کش حملہ قرار دے رہا ہے جب کہ حزبِ اختلاف کے ایک مسلح دھڑے نے اسے ریموٹ کنٹرول کے ذریعے کیا گیا بم دھماکہ قرار دیا ہے۔

'نیو یارک ٹائمز' لکھتا ہے کہ گو کہ شام میں حزبِ اختلاف کے مسلح گروہ بظاہر پیش قدمی کرتے نظر آرہے ہیں لیکن صدر اسد کی جانب سے اقتدار چھوڑنے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ اخبار کے اداریہ نویس کے بقول بشار الاسد اپنے مرحوم والد حافظ الاسد سے کہیں بڑھ کر ظالم ثابت ہوئے ہیں اور انہوں نے اپنے مخالفین کو بے دردی سے کچلا ہے۔ ملک میں اب تک ہزاروں عام شہری ہلاک ہوچکے ہیں جب کہ مزید کئی ہزار حکومتی افواج کے ٹینکوں اور ہیلی کاپٹروں کے نشانے پر ہیں۔

اخبار نے اس خبر پر بھی تشویش ظاہر کی ہے کہ اسد حکومت اپنے کیمیائی ہتھیاروں کو مخالفین کے خلاف استعمال کرنے کی غرض سے گوداموں سے مختلف علاقوں میں منتقل کر رہی ہے۔
بشار الاسد اپنے مرحوم والد حافظ الاسد سے کہیں بڑھ کر ظالم ثابت ہوئے ہیں
نیویارک ٹائمز


'نیو یارک ٹائمز' نے شامی حکومت کی پشت پناہی کرنے پر روس پہ کڑی تنقید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ماسکو کی ہٹ دھرمی کے باعث بحران کے سفارتی حل کے امکانات معدوم ہوتے جارہے ہیں اور اس ضمن میں امریکہ اور دیگر مغربی طاقتوں کی کوششیں رائیگاں جارہی ہیں۔

اخبار لکھتا ہے کہ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ آخر روسی رہنماؤں کو بشارالاسد کی ظالم حکومت کی حمایت پر اڑے رہنے سے کیا حاصل ہوگا کیوں کہ، اخبار کے الفاظ میں، شامی حکومت نہ تو روس کی کچھ مدد کرسکتی ہے اور نہ ہی اس کا وجود شامی عوام اور خطے کے مفاد میں ہے۔

'نیو یارک ٹائمز' نے روس پر زور دیا ہے کہ وہ محض امریکہ کو نیچا دکھانے کے لیے شامی حکومت کی حمایت ترک کردے اور بحران کے قابلِ عمل سفارتی حل کے لیے عالمی برادری کا ساتھ دے۔


امریکی ایتھلیٹس کے 'یونیفارم' کا تنازع

لندن اولمپکس کی 27 جولائی کو ہونے والی افتتاحی تقریب میں امریکی دستے کے ارکان جو وردیاں زیبِ تن کریں گے وہ چین میں تیار ہوئی ہیں۔ امریکی ایتھلیٹس کے ان 'میڈ اِن چائنا' یونیفارمز پر امریکی معاشرے اور ذرائع ابلاغ میں ایک ہنگامہ مچا ہوا ہے اور کئی حلقے اس پر اپنی ناراضی کا اظہار کر رہے ہیں۔

اس معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے اخبار 'یو ایس اےٹوڈے' نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ ارکانِ کانگریس سمیت بعض ناقدین کا ردِ عمل مَضحَکَہ خیز ہے اور انہوں نے حب الوطنی کے جوش میں یہ تک کہہ دیا ہے کہ ان یونیفارمز کو آگ لگادینی چاہیے۔

اخبار لکھتا ہے کہ امریکہ کی اولمپک ٹیم اوراس کی وردیوں کی علامتی اہمیت تسلیم، لیکن 'گلوبلائزڈ اکانومی' کے اس دور میں کھلاڑیوں کے لیے بیرونِ ملک بنی ہر اس شے کا استعمال ضروری سمجھا جاتا ہے جس سے ان کی مقابلہ کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی کھلاڑیوں کے درآمد شدہ جوتوں، پیراکی کے لباس اور دیگر اشیا پر پابندی کا مطالبہ محض اس لیے نہیں کر رہا کہ وہ کسی اور ملک میں تیار ہوئے ہیں۔

'یو ایس اے ٹوڈے' نے لکھا ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے امریکی عوام اور ارکانِ کانگریس ملک میں تیار کیے جانے والے مہنگے ملبوسات کے مقابلے میں بیرونِ ملک سے درآمد شدہ سستے کپڑوں کی حمایت کرتے رہے ہیں۔ اخبار کے مطابق اسی رویے کے نتیجے میں امریکہ کی بیشتر ٹیکسٹائل ملیں بند ہوچکی ہیں اور ملک میں ایک عرصے سے کپڑے اور ملبوسات درآمد کیے جارہے ہیں جو نسبتاً سستے پڑتے ہیں۔

اخبار کے مطابق اب اس رواج کے آگے بند باندھنا ناممکن ہے کیوں کہ اگر امریکہ نے بیرونِ ملک سے کپڑوں کی درآمد روکنے کی کوشش کی تو دیگر ممالک بھی امریکی برآمدات کے خلاف اقدامات کریں گے جس کے تباہ کن نتائج برآمد ہوں گے۔

'یو ایس اے ٹوڈے' نے کھلاڑیوں کی وردیوں کے معاملے پر ہونے والے شور و غوغا کو بے جا قرار دیتے ہوئے ارکانِ کانگریس کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ان معاملات پر وقت ضایع کرنے کے بجائے امریکہ میں ایسے رجحانات کو فروغ دیں جس کے نتیجے میں ملبوسات اور ضروری استعمال کی دیگر اشیا کم قیمت پر ملک میں ہی تیار کی جاسکیں۔


ہم جنس پرستوں کے 'اسکاؤٹ' بننے پر پابندی

امریکی بوائے اسکاؤٹس کی نمائندہ تنظیم کی جانب سے اپنی صفوں میں ہم جنس پرستوں اور دہریوں کو شامل کرنے سے مسلسل انکار پر اخبار 'لاس اینجلس ٹائمز' نےافسوس ظاہر کیا ہے۔

اخبار نے لکھا ہے کہ 'بوائے اسکاؤٹس آف امریکہ' کے اس فیصلے کا مقصد ان مذہبی تنظیموں کو خوش کرنا ہے جو اس کے بیشتر دستوں اور سرگرمیوں کے لیے وسائل فراہم کرتی ہیں۔
جنسی امتیاز کی اس پالیسی کے پیشِ نظر کارپوریشنوں اور میونسپل اداروں کے لیے اسکائوٹس کی مدد جاری رکھنا مشکل ہوجائے گا
لاس اینجلس ٹائمز


'لاس اینجلس ٹائمز' لکھتا ہے کہ اس فیصلے کے نتیجے میں بوائے اسکاؤٹس کو شاید مذہبی تنظیموں کی مدد تو حاصل رہے لیکن جنسی امتیاز کی اس پالیسی کے پیشِ نظر کارپوریشنوں اور میونسپل اداروں کے لیے اسکاؤٹس کی مدد جاری رکھنا مشکل ہوجائے گا۔