رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے: روشن خیال پاکستانیوں کی مشکل


'وال اسٹریٹ جرنل' لکھتا ہے کہ یہ تاثر درست نہیں کہ لبرل افراد کی جڑیں پاکستانی معاشرے میں پیوست نہیں اور وہ عام پاکستانیوں کو کسی اور دنیا کی مخلوق دکھائی دیتے ہیں

اخبار 'وال اسٹریٹ جرنل' نے پاکستان میں لبرل حلقوں کو درپیش مشکلات اور ان کے لیے اندرونِ ملک موجود ناسازگار حالات پر ایک مضمون شائع کیا ہے۔

please wait

No media source currently available

0:00 0:04:57 0:00

اخبار لکھتا ہے کہ ایک حالیہ سروے کے مطابق پاکستانیوں کی اکثریت امریکہ کو دشمن سمجھتی ہے، جمہوریت سے نالاں ہے اور ملک میں شریعت کے نفاذ کے خواب دیکھتی ہے۔ عدالتیں منتخب وزیرِاعظم کو گھر بھیج رہی ہیں جب کہ عمران خان جیسے سیاست دان سامراج مخالف اور اسلام پسند جذبات بھڑکا کر مقبولیت کی بلندیوں کو چھو رہے ہیں۔ اور ملک کا اردو میڈیا قوم پرستی کے بخار میں مبتلا ہے۔

'وال اسٹریٹ جرنل' نے لکھا ہے کہ ان پیچیدہ حالات کے تناظر میں ان مشکلات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے جن سے اس وقت پاکستان کے لبرل اور روشن خیال حلقوں کو سابقہ درپیش ہے۔

اخبار نے لکھا ہے کہ مغربی دنیا کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ تیسری دنیا کے ممالک میں طاقت رکھنے والے حلقوں سے معاملات کرتی ہےاور اس وقت امریکہ پاکستان میں اسی روایت پر کاربند ہے ۔

اخبار نے لکھا ہے کہ مغربی ممالک کو پاکستان کی طاقتور فوج اور عمران خان جیسے سیاست دانوں کے ساتھ معاملات کرنے کے بجائے پاکستان کے روشن خیال حلقوں کو اہمیت دینی چاہیے کیوں کہ درحقیقت یہ لبرل لوگ ہی، اخبار کے الفاظ میں، پاکستان کے روشن مستقبل کی امید ہیں۔

'وال اسٹریٹ جرنل' لکھتا ہے کہ یہ تاثر درست نہیں کہ لبرل افراد کی جڑیں پاکستانی معاشرے میں پیوست نہیں اور وہ عام پاکستانیوں کو کسی اور دنیا کی مخلوق دکھائی دیتے ہیں۔

اخبار کے مطابق پاکستان میں انگریزی بولنے والوں کا ایک خاصا بڑا مراعات یافتہ طبقہ موجود ہے جس نے پاکستانی معاشرے اور جنوبی ایشیا کو کئی اہم لکھاری، وکیل، سیاست دان اور سائنس دان دیے ہیں۔

اخبار نے لکھا ہے کہ پاکستان میں صرف اس انگریزی داں طبقے کے ساتھ ہی نامناسب برتائو نہیں ہورہا بلکہ دیگر لبرل حلقوں – بشمول قوم پرستوں، حقوقِ نسواں اور مذہبی و اظہارِ رائے کی آزادیوں کے حق میں آواز اٹھانے والوں کو بھی مذہبی طبقات اور ملک کے سیکیورٹی ادارے ڈرا دھمکا رہے ہیں۔

'وال اسٹریٹ جرنل' لکھتا ہے کہ پاکستانی لبرلز کا ایک المیہ یہ ہے کہ انہیں اب تک کوئی ایسا سیاسی رہنما میسر نہیں آسکا ہے جو معذرت خواہانہ انداز اختیار کیے بغیر سینہ تان کر ان کی ترجمانی کرسکے۔

اخبار کے بقول گوکہ موجودہ حکمران جماعت 'پاکستان پیپلز پارٹی' مذہبی رواداری پر یقین رکھنے والے روشن خیال پاکستانیوں کی نمائندگی کرتی ہے لیکن یہ جماعت اقتدار میں آنے کے بعد غیر موثر ثابت ہوئی ہے۔ پی پی پی کے موجودہ دورِ حکومت میں پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر جیسے روشن خیال شخص اور وفاقی کابینہ کے واحد عیسائی رکن دن دیہاڑے قتل کردیے گئے جب کہ ملک کے طول و عرض میں اقلیتوں کے ساتھ بدسلوکی کے بھی کئی واقعات پیش آئے۔

'وال اسٹریٹ جرنل' لکھتا ہے کہ گو کہ پاکستان میں اس وقت کوئی ایسی قومی سیاسی جماعت موجود نہیں جسے مکمل معنوں میں لبرل کہا جاسکے، لیکن مغرب کو اس بنیاد پر پاکستانی لبرل حلقوں کی مدد اور حوصلہ افزائی سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیئے اور ان کی حمایت جاری رکھنی چاہیے۔


امریکہ ایرانی آبدوزوں سے پریشان

اخبار 'کرسچن سائنس مانیٹر' نے اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ امریکہ خلیجِ ہرمز میں ایرانی بحریہ کے ساتھ تصادم کی تیاریوں میں خاموشی سے مصروف ہے۔

اخبار کے مطابق ایرانی بحریہ اپنی چھوٹی آبدوزوں کے بیڑے میں بتدریج اضافہ کر رہی ہے جن کی نقل و حرکت کا سراغ لگانا امریکہ کے لیے انتہائی مشکل ہے۔
ایرانی بحریہ کے پاس ایسی 19 چھوٹی آب دوزیں موجود ہیں جن کا سراغ لگانا امریکی بحریہ کے لیے بہت مشکل ہے


یہ آبدوزیں تارپیڈو اور دیگر اسلحے سے لیس ہیں لیکن امریکی بحریہ کے لیے اصل پریشانی ان آب دوزوں میں موجود وہ بارودی سرنگیں ہیں جنہیں کسی بھی وقت بچھا کر خلیجِ ہرمز جیسی اہم ترین تجارتی گزرگاہ کو بند کیا جاسکتا ہے۔

ایران سے لاحق اسی خطرے کے پیشِ نظر خطے میں امریکی افواج کے سربراہ نے حال ہی میں خلیج میں بارودی سرنگیں صاف کرنے والی امریکی کشتیوں کی تعداد دگنی کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اخبار کے مطابق خلیج کے علاقے میں گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے ایسی صرف چار کشتیاں تعینات تھیں جن کی تعداد اب بڑھا کر آٹھ کی جارہی ہے۔

'کرسچن سائنس مانیٹر' لکھتا ہے کہ ایران کی جانب سے چھوٹی آبدوزوں کی تعداد میں اضافے اور امریکہ کی جوابی کاروائی نے خلیجِ ہرمز کے علاقے میں فوجی کشیدگی میں اضافہ کردیا ہے اور دونوں ممالک کی بحری افواج کے درمیان تصادم کے امکانات بڑھ گئےہیں۔

اخبار نے لکھا ہے کہ امریکہ نے بارودی سرنگیں صاف کرنے والی چار اضافی کشتیوں کے علاوہ 'سی ڈریگنز' نامی ہیلی کاپٹر بھی خطے میں بھجوادیے ہیں جنہیں ایرانی آبدوزوں کا توڑ قرار دیا جارہا ہے۔

اخبار کے مطابق امریکی بحریہ سوویت انداز کی بڑی بڑی آبدوزوں کا تو بآسانی سراغ لگاسکتی ہے لیکن اسے اس نئی طرز کی آبدوزوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کا کوئی تجربہ نہیں۔

امریکی فوجی ماہرین ان آبدوزوں کو اس لیے بھی ایک سنگین خطرہ سمجھ رہے ہیں کیوں کہ ان کے بقول یہ امریکی بحریہ کی نظروں میں آئے بغیر بآسانی پورے بحیرہ عرب میں گشت کرسکیں گی اور کسی بھی فوجی تصادم کی صورت میں گھات لگا کر حملہ کرنے کے قابل ہوں گی۔

اخبار کے مطابق پانچ برس قبل تک ایران کے پاس ایسی ایک بھی آبدوز موجود نہیں تھی لیکن اس وقت ایرانی بحریہ کے پاس ایسی 19 آبدوزیں ہیں۔ جب کہ ان کی اہمیت اور اثر انداز ہونے کی صلاحیت کے پیشِ نظر ایران ہر سال ایسی چار آبدوزیں تیار کر رہا ہے۔
XS
SM
MD
LG