نیٹو سپلائی کی سات ماہ طویل بندش سے ایک حقیقت واضح ہوگئی ہے کہ پاکستان کےساتھ وہ گہرا تعلق قائم کرنے کا خواب مستقبل قریب میں پورا ہوتا نظر نہیں آتا جو اوباما انتظامیہ ایک عرصے سے دیکھ رہی تھی: واشنگٹن پوسٹ
امریکی اخبار 'واشنگٹن پوسٹ' نے نیٹو سپلائی کی بحالی کے پسِ منظر میں پاکستان اور امریکہ کے باہمی تعلقات کو اپنے اداریے کا موضوع بنایا ہے۔
اخبار لکھتا ہے کہ سپلائی کی بحالی دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے کیوں کہ اس سے نہ صرف امریکہ کو اپنی افواج اور دیگر سازو سامان 2014ء کی ڈیڈ لائن سے قبل افغانستان سے نکالنے میں سہولت ہوگی بلکہ پاکستان کو بھی امداد کی مد میں ایک ارب ڈالر سے زائد رقم مل جائے گی جو امریکہ نے روک رکھی تھی۔
لیکن اخبار کے مطابق نیٹو سپلائی کی اس سات ماہ طویل بندش اور اس کے نتیجے میں کھڑے ہونے والے بحران سے بہر حال ایک حقیقت واضح ہوگئی ہے کہ پاکستان کےساتھ وہ گہرا تعلق قائم کرنے کا خواب مستقبل قریب میں پورا ہوتا نظر نہیں آتا جو اوباما انتظامیہ ایک عرصے سے دیکھ رہی تھی۔
اخبار نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ اس تعلق کے قائم نہ ہونے کی وجہ نہ تو نامناسب امریکی سفارت کاری ہے اور نہ ہی پاکستانی قبائلی علاقوں میں کیے جانے والے امریکی ڈرون حملے۔ اور نہ ہی قریبی تعاون کی ان کوششوں کو اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے لیے کیے جانے والے امریکی آپریشن نے نقصان پہنچایا ہے۔
اس کے برعکس، 'واشنگٹن پوسٹ' کے الفاظ میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعاون کی راہ میں حائل اصل رکاوٹ پاکستان کا داخلی سیاسی بحران ہے۔ اخبار نے لکھا ہے کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جسے اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے بدعنوان، ایک دوسرے کے خون کے پیاسےاور اپنے معاشرے سےلا تعلق سیاست دانوں اور دہشت گردوں سے یارانہ رکھنے اور خطے پر بالادستی کے ناقابلِ حصول اور ناقابلِ قبول خواب دیکھنے والی فوج نے تقسیم کرکے رکھ دیا ہے۔
'واشنگٹن پوسٹ' لکھتا ہے کہ پاکستان میں صدر آصف علی زرداری کی حکومت اور سپریم کورٹ ایک لاحاصل جنگ میں الجھے ہوئے ہیں، عوام پانی اور بجلی نہ ملنے پر سڑکوں پہ احتجاج کر رہے ہیں، معیشت کی کشتی ڈوب رہی ہے اور دہشت گردوں کے حملے بڑھتے جارہے ہیں۔
اخبار کے بقول پاک فوج اور اس کی خفیہ ایجنسیاں ملک کے ان حالات سے لا تعلق ہیں اور بدستور ان دہشت گرد گروہوں کی سرپرستی میں مصروف ہیں جو افغانستان میں امریکی افواج و تنصیبات اور بھارت کو نشانہ بناتے ہیں۔
'واشنگٹن پوسٹ' نے پاکستانی ذرائع ابلاغ کو بھی فوج کے زیرِاثر قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ملک میں امریکہ مخالف جذبات کو فروغ دے رہے ہیں۔
اخبار نے لکھا ہے کہ ان حالات کے پیشِ نظر امریکہ اس وقت تک پاکستان کے ساتھ پائیدار اور مضبوط تعلق قائم نہیں کرسکتا جب تک ملک میں ایک ایسی حقیقی جمہوری حکومت برسرِ قتدار نہیں آجاتی جو امریکہ کے ساتھ اس روایتی معاندانہ رویے کو ترک کرسکے۔
اخبار کے اداریہ نویس کے بقول جب تک ایسا نہیں ہوتا، امریکہ کو یونہی پاکستان کو کبھی لالچ دے کر اور کبھی ڈرا دھمکا کر اپنا کام نکالنا ہوگا۔
امریکی اخبارات ہلری کے سحر میں گرفتار
امریکی ذرائع ابلاغ میں ان دنوں ہیلری کلنٹن کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے اور مضامین اور اداریوں میں ان کی تعریفوں کے پل باندھے جارہے ہیں۔
اخبار 'وال اسٹریٹ جرنل' میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں مس کلنٹن کے ساتھ امریکی ذرائع ابلاغ کی امڈنے والی اس اچانک محبت کا تجزیہ کیا گیا ہے۔
اخبار کا مضمون نگار لکھتا ہے کہ یہ ٹھیک ہے کہ امریکی کابینہ میں اگر کلنٹن داخلی سلامتی کی وزیر جینٹ نپولیٹانو اور نائب صدر جو بائیڈن کے برابر بیٹھی ہوں تو یقیناً نگاہ انہی پر ٹہرے گی۔ اور اگر انہیں یہ مقابلہ اپنے باس، یعنی صدر براک اوباما، سے درپیش ہو تو پھر بھی انہی کا پلہ بھاری رہے گا۔
اخبار کے مطابق یہ بھی ٹھیک ہے کہ وہ ایک سخت محنت کرنے والی اور اپنے معاملات پر گرفت رکھنی والی وزیرِ خارجہ ہیں اور اس دعویٰ میں بھی وزن ہے کہ اگر انہوں نے 2016ء کا صدارتی انتخاب لڑا اور کامیاب رہیں، تو وہ صدر براک اوباما سے کہیں بہتر صدر ثابت ہوں گی۔
لیکن 'وال اسٹریٹ جرنل' کے مطابق ان تمام تر خصوصیات کےباوجود ہیلری کی شان میں امریکی اخبارات میں جو قصیدہ گوئی کی جارہی ہے وہ حقیقت سے بہت دور ہے۔
اخبار کے مضمون نگار کے بقول ہیلری نے کوئی سفارتی معرکہ انجام دیا ہے، نہ امریکہ کی خارجہ پالیسی پر ان کی شخصیت اور نظریات حاوی نظر آتے ہیں۔ انہوں نے سفارت کاری کے میدان میں نئے نظریات متعارف کرائے ہیں، نہ ہی کوئی نیا اتحاد تشکیل دیا ہے اور نہ ہی کسی عظیم منصوبے کی داغ بیل ڈالی ہے۔ لہذا انہیں کسی بھی طرح ایک عظیم تو کیا ایک بہت اچھی وزیرِ خارجہ قرار دینا بھی مبالغہ آرائی ہوگی۔
'وال اسٹریٹ جرنل' لکھتا ہے کہ خارجہ امور کے محا ذ پر ہیلری کی کارکردگی اتنی بھی متاثر کن نہیں جتنا کہ بیان کیا جارہا ہے۔ انہیں اپنے باس، یعنی صدر اوباما، کا حد سے زیادہ وفادار سمجھا جاتا ہے اوروہ بعض اوقات اس وفاداری پر اصولوں کو بھی قربان کردیتی ہیں۔
ہیلری کو زمینی حقائق کو مدِ نظر رکھتے ہوئے سفارت کاری کرنے والی رہنما سمجھا جاتا ہے لیکن ان کی یہ صلاحیت کسی بھی اہم مسئلے کا کوئی حل سامنے نہیں لاسکی ہے۔ نہ ان کی یہ صلاحیت روس کا رویہ تبدیل کرسکی ہے، نہ چین کے موقف میں کوئی نرمی آئی ہے اور نہ ہی انہیں ایران کے بحران کے حل میں کامیابی ہوئی ہے۔
اخبار لکھتا ہے کہ ہیلری کو صدر براک اوباما کی غلطیوں اور ناکامیوں کا ذمہ دار تو قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس صدر کا ساتھ دینے کا فیصلہ ہیلری کا اپنا تھا اور اسی لیے اوباما انتظامیہ کی خارجہ پالیسی کی ناکامیوں کا بوجھ بھی انہیں ہی ڈھونا پڑے گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
اخبار لکھتا ہے کہ سپلائی کی بحالی دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے کیوں کہ اس سے نہ صرف امریکہ کو اپنی افواج اور دیگر سازو سامان 2014ء کی ڈیڈ لائن سے قبل افغانستان سے نکالنے میں سہولت ہوگی بلکہ پاکستان کو بھی امداد کی مد میں ایک ارب ڈالر سے زائد رقم مل جائے گی جو امریکہ نے روک رکھی تھی۔
لیکن اخبار کے مطابق نیٹو سپلائی کی اس سات ماہ طویل بندش اور اس کے نتیجے میں کھڑے ہونے والے بحران سے بہر حال ایک حقیقت واضح ہوگئی ہے کہ پاکستان کےساتھ وہ گہرا تعلق قائم کرنے کا خواب مستقبل قریب میں پورا ہوتا نظر نہیں آتا جو اوباما انتظامیہ ایک عرصے سے دیکھ رہی تھی۔
اخبار نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ اس تعلق کے قائم نہ ہونے کی وجہ نہ تو نامناسب امریکی سفارت کاری ہے اور نہ ہی پاکستانی قبائلی علاقوں میں کیے جانے والے امریکی ڈرون حملے۔ اور نہ ہی قریبی تعاون کی ان کوششوں کو اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے لیے کیے جانے والے امریکی آپریشن نے نقصان پہنچایا ہے۔
اس کے برعکس، 'واشنگٹن پوسٹ' کے الفاظ میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعاون کی راہ میں حائل اصل رکاوٹ پاکستان کا داخلی سیاسی بحران ہے۔ اخبار نے لکھا ہے کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جسے اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے بدعنوان، ایک دوسرے کے خون کے پیاسےاور اپنے معاشرے سےلا تعلق سیاست دانوں اور دہشت گردوں سے یارانہ رکھنے اور خطے پر بالادستی کے ناقابلِ حصول اور ناقابلِ قبول خواب دیکھنے والی فوج نے تقسیم کرکے رکھ دیا ہے۔
واشنگٹن پوسٹ' کے الفاظ میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعاون کی راہ میں حائل اصل رکاوٹ پاکستان کا داخلی سیاسی بحران ہے
'واشنگٹن پوسٹ' لکھتا ہے کہ پاکستان میں صدر آصف علی زرداری کی حکومت اور سپریم کورٹ ایک لاحاصل جنگ میں الجھے ہوئے ہیں، عوام پانی اور بجلی نہ ملنے پر سڑکوں پہ احتجاج کر رہے ہیں، معیشت کی کشتی ڈوب رہی ہے اور دہشت گردوں کے حملے بڑھتے جارہے ہیں۔
اخبار کے بقول پاک فوج اور اس کی خفیہ ایجنسیاں ملک کے ان حالات سے لا تعلق ہیں اور بدستور ان دہشت گرد گروہوں کی سرپرستی میں مصروف ہیں جو افغانستان میں امریکی افواج و تنصیبات اور بھارت کو نشانہ بناتے ہیں۔
'واشنگٹن پوسٹ' نے پاکستانی ذرائع ابلاغ کو بھی فوج کے زیرِاثر قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ملک میں امریکہ مخالف جذبات کو فروغ دے رہے ہیں۔
اخبار نے لکھا ہے کہ ان حالات کے پیشِ نظر امریکہ اس وقت تک پاکستان کے ساتھ پائیدار اور مضبوط تعلق قائم نہیں کرسکتا جب تک ملک میں ایک ایسی حقیقی جمہوری حکومت برسرِ قتدار نہیں آجاتی جو امریکہ کے ساتھ اس روایتی معاندانہ رویے کو ترک کرسکے۔
اخبار کے اداریہ نویس کے بقول جب تک ایسا نہیں ہوتا، امریکہ کو یونہی پاکستان کو کبھی لالچ دے کر اور کبھی ڈرا دھمکا کر اپنا کام نکالنا ہوگا۔
امریکی اخبارات ہلری کے سحر میں گرفتار
امریکی ذرائع ابلاغ میں ان دنوں ہیلری کلنٹن کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے اور مضامین اور اداریوں میں ان کی تعریفوں کے پل باندھے جارہے ہیں۔
اخبار 'وال اسٹریٹ جرنل' میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں مس کلنٹن کے ساتھ امریکی ذرائع ابلاغ کی امڈنے والی اس اچانک محبت کا تجزیہ کیا گیا ہے۔
اخبار کا مضمون نگار لکھتا ہے کہ یہ ٹھیک ہے کہ امریکی کابینہ میں اگر کلنٹن داخلی سلامتی کی وزیر جینٹ نپولیٹانو اور نائب صدر جو بائیڈن کے برابر بیٹھی ہوں تو یقیناً نگاہ انہی پر ٹہرے گی۔ اور اگر انہیں یہ مقابلہ اپنے باس، یعنی صدر براک اوباما، سے درپیش ہو تو پھر بھی انہی کا پلہ بھاری رہے گا۔
اخبار کے مطابق یہ بھی ٹھیک ہے کہ وہ ایک سخت محنت کرنے والی اور اپنے معاملات پر گرفت رکھنی والی وزیرِ خارجہ ہیں اور اس دعویٰ میں بھی وزن ہے کہ اگر انہوں نے 2016ء کا صدارتی انتخاب لڑا اور کامیاب رہیں، تو وہ صدر براک اوباما سے کہیں بہتر صدر ثابت ہوں گی۔
لیکن 'وال اسٹریٹ جرنل' کے مطابق ان تمام تر خصوصیات کےباوجود ہیلری کی شان میں امریکی اخبارات میں جو قصیدہ گوئی کی جارہی ہے وہ حقیقت سے بہت دور ہے۔
اخبار کے مضمون نگار کے بقول ہیلری نے کوئی سفارتی معرکہ انجام دیا ہے، نہ امریکہ کی خارجہ پالیسی پر ان کی شخصیت اور نظریات حاوی نظر آتے ہیں۔ انہوں نے سفارت کاری کے میدان میں نئے نظریات متعارف کرائے ہیں، نہ ہی کوئی نیا اتحاد تشکیل دیا ہے اور نہ ہی کسی عظیم منصوبے کی داغ بیل ڈالی ہے۔ لہذا انہیں کسی بھی طرح ایک عظیم تو کیا ایک بہت اچھی وزیرِ خارجہ قرار دینا بھی مبالغہ آرائی ہوگی۔
خارجہ امور کے محاذ پر ہیلری کی کارکردگی اتنی بھی متاثر کن نہیں جتنا کہ بیان کیا جارہا ہےوال اسٹریٹ جرنل
'وال اسٹریٹ جرنل' لکھتا ہے کہ خارجہ امور کے محا ذ پر ہیلری کی کارکردگی اتنی بھی متاثر کن نہیں جتنا کہ بیان کیا جارہا ہے۔ انہیں اپنے باس، یعنی صدر اوباما، کا حد سے زیادہ وفادار سمجھا جاتا ہے اوروہ بعض اوقات اس وفاداری پر اصولوں کو بھی قربان کردیتی ہیں۔
ہیلری کو زمینی حقائق کو مدِ نظر رکھتے ہوئے سفارت کاری کرنے والی رہنما سمجھا جاتا ہے لیکن ان کی یہ صلاحیت کسی بھی اہم مسئلے کا کوئی حل سامنے نہیں لاسکی ہے۔ نہ ان کی یہ صلاحیت روس کا رویہ تبدیل کرسکی ہے، نہ چین کے موقف میں کوئی نرمی آئی ہے اور نہ ہی انہیں ایران کے بحران کے حل میں کامیابی ہوئی ہے۔
اخبار لکھتا ہے کہ ہیلری کو صدر براک اوباما کی غلطیوں اور ناکامیوں کا ذمہ دار تو قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس صدر کا ساتھ دینے کا فیصلہ ہیلری کا اپنا تھا اور اسی لیے اوباما انتظامیہ کی خارجہ پالیسی کی ناکامیوں کا بوجھ بھی انہیں ہی ڈھونا پڑے گا۔