امریکی اخبارات سے: ڈرون کا استعمال

کالم نگار، یوجین رابن سن کہتے ہیں، ’لیکن اِس موٴثر کاروائی کو بطور جواز پیش نہیں کیا جا سکتا، اور جنگ کے لئے ڈرون حملوں کے استعمال کو مکمل طور پر جائز نہیں قرار دیا جا سکتا‘
افغانستان، پاکستان اور دوسرے ملکوں پر ڈرون حملوں کے بارے میں کالم نگار یوجین رابن سن نے اخبار ’سیکرے مینٹو بی‘ میں اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ فوجی اعتبار سے یہ نہائت کارگر ہتھیار ثابت ہوتا ہوگا۔ لیکن، اس میں جس طرح بے گُناہ شہری ہلاک ہوتے ہیں، وہ نہ صرف مکروہ ہے بلکہ غیر اخلاقی بھی۔

کالم نگار کی نظر میں اگر امریکی اس تلخ حقیقت کو نظرانداز کر رہے ہیں، تو پھر وُہ بھی اس قتل میں شریک ہیں۔


وہ کہتے ہیں کہ یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ صدر اوبامہ نےدہشت گردی اور طالبان کے خلاف جنگ میں ڈرون حملوں کو اپنا پسندیدہ ہتھیار بنا لیا ہے۔ بغیر پائلٹ کے چلنے والےان طیاروں کی مدد سے سی آئی اے کے لئے امریکی جانیں خطرے میں ڈالے بغیر دُشمن کے مضبوط ٹھکانوں میں مخصوص افراد کو ٹھکانے لگانے میں آسانی ہوتی ہوگی۔ لیکن اس موثر کاروائی کو بطور جواز پیش نہیں کیا جا سکتا، اور جنگ کے لئے ڈرون حملوں کے استعمال کو مکمل طور پر جائز نہیں قرار دیا جا سکتا۔

کالم نگار نےصدر اوبامہ کے اُن اقدامات کو سراہا ہے جن کے تحت قیدیوں پر تشدّد بند کیا گیا اور سمندر پار ملکوں میں قید خانے ختم کئے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ، اُنہوں نے خلیج گوانتانامو کے قید خانے کو بند کرانے کی بھی ایمان دارانہ کوشش کی ہے۔

لیکن، مسٹر اوبامہ نے ڈرون طیاروں کے استعمال کو جو وسعت دی ہے، وہ کالم نگار کی نظر میں قتل و غارت کی مہم کے مشابہ ہوگئی ہے۔ کیونکہ، ڈرون حملوں میں صرف وُہی لوگ ہلاک نہیں ہوتے ہیں جن کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ بلکہ، اُن کے ساتھ بے گناہ لوگ بھی مارے جاتے ہیں۔ اب تک کُل کتنے ایسے افراد مارے گئے ہیں۔ کالم نگار کا کہنا ہے کہ اس پر اوبامہ انتظامیہ کُچھ نہیں کہتی۔ اُس کا اس پر اصرار ہے کہ ان حملوں میں کمی کی جا رہی ہے، اور اہداف کے انتخاب میں سخت قواعد اپنائے گئے ہیں۔


رابن سن کہتے ہیں کہ ’نُیو امیریکن فونڈیشن‘ نے ڈرون حملوں میں ہلاک ہونے والوں کا حساب رکھنے کی کوشش کی ہے، اور اس کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ڈرون حملوں میں مرنے والوں کی تعداد 258 اور 307 کے درمیان ہے۔ جب کہ یمن میں یہ تعداد 66 اور 68 کے درمیان ہے۔ کالم نگار کا کہنا ہے کہ یہ تعداد تھوڑی کیوں نہ ہو، یہ نہ بُھولنا چاہئے کہ اُن میں سے ہر فرد انسان تھا، جس کی طرف سے امریکہ یا اس کے مفادات کو کوئی خطرہ نہیں تھا۔

رابن سن کا کہنا ہے کہ جہاں صدر اوبامہ کے صحت عامّہ کی نگہداشت کے قانون کو ایک عظیم اخلاقی کامیابی قرار دیا جائے گا، وہاں ڈرون طیاروں کی اس جنگ کو اخلاقی ناکامی سے تعبیر کیا جائے گا۔

اخبار ’واشنگٹن ٹائمز‘ کی رپورٹ کے مطابق، ایرن کی وزارت خارجہ نے افغانستان کو مشورہ دیا ہے کہ وُہ امریکہ کے ساتھ سیکیورٹی کے اُس معاہدے پر دستخط نہ کرے، جس کی رُو سے امریکی فوجوں کو اگلے 10 سال تک وہاں متعیّن رہنے کی اجازت ہوگی۔ یہ درخواست افغان صدر حامد کرزئی کے ایران کے دورے پر روانہ ہونے سے قبل کی گئی ہے۔

مسٹر کرزئی پہلے کہہ چُکے ہیں کہ وہ اس
معاہدے پر اگلے سال اپریل سے پہلے دستخط نہیں کریں گے، جب وہ اپنے عہدے سے سبکدوش ہونے والے ہونگے۔

ان کے اس فیصلےکی وجہ دہشت گردوں اور مشتبہ عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کے لئے امریکی ڈرون طیاروں کا استعمال ہے، جس پر مسٹر کرزئی برہم ہیں، اور وہ کہتے ہیں کہ ان حملوں میں اکثر و بیشتر شہریوں کی جانیں جاتی ہی۔

ایرانی ترجمان کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ افغانستان نے اگر امریکہ کے ساتھ یہ معاہدہ کیا تو علاقائی امور پر اس سے منفی اثرات مرتّب ہونگے۔ ایران شروع ہی سے افغانستان سے امریکی فوجوں کو ہٹانے کا مطالبہ کرتا آیا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان 580 میل لمبی سرحد ہے۔


’منیا پولِس سٹار ٹربیون‘ اخبار ایک ادارئے میں کہتا ہے کہ امریکی کانگریس کی اس سال کی واضح ناکامیوں میں سے ایک اسلحے کے استعمال پر کنٹرول سے متعلّق کوئی موثّر قانون مرتّب نہ کرنا ہے۔ باوجودیکہ، ملک میں پھر وسیع پیمانے پر بندوق کا بے دریغ استعمال ہوا ہے، جس میں پچھلے سال دسمبر کے مہینے میں کنٹی کٹ کے ایک سکول میں بچوں کا قتل عام شامل ہے۔ بلکہ، قانون سازون نے اسلحہ خریدنے والوں کے چلن کی تفتیش کے بارے میں ضروری قانون سازی بھی نہیں کی۔

اب اخبار کہتا ہے کہ 9 دسمبر تک ایسے پلاسٹک گنون پر پابندی کی توسیع کرنا ضروری ہے، جن کا میٹل ڈٹیکٹر سراغ نہیں لگا سکتے، اور اخبار نے اس قانون کو مزید سخت بنانے پر زور دیا ہے۔