رائے عامّہ کے بیشتر جائزوں کے مطابق صدر اوبامہ اور اُن کے مد مقابل مٹ رامنی کے حاہی تقریبًا برابر برابر ہیں اور یہ پیشگوئی کرنا کم و بیش نا ممکن ہے کہ جیت کس کی ہوگی
منگل کے روز امریکی صدارتی انتخابات کےموقع پر رائے عامّہ کے بیشتر جائزوں کےمطابق صدر اوبامہ اور اُن کے مد مقابل مٹ رامنی کے حاہی تقریبًا برابر برابر ہیں اور یہ پیشگوئی کرنا کم و بیش نا ممکن ہے کہ جیت کس کی ہوگی۔
’وال سٹریٹ جنرل‘ اور ’این بی سی‘ نے متوقّع ووٹروں کا جو جائزہ لیا ہے اُس کے مطابق، مسٹر اوبامہ، مٹ رامنی سے بال بھر آگے ہیں۔اُن کے حامیوں کا تناسُب 48 فیصد ہے اور اُن کے حریف مٹ رامنی کا47 فیصد ہے۔
’وال سٹریٹ جرنل‘ کا کہنا ہے کہ جن ریاستوں میں مقابلہ سخت ہے، مثلاً ورجنیا اور اوہایو سے لے کر نیو ہیم شائر، اور پینسلوینیہ بلکہ مشی گن تک، اُن سب میں مقابلہ اور بھی سخت ہو گیا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ قومی سطح پر اُس نے جو جائزے لئے ہیں اُن سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں امّید واروں نے کئی چیلنجوں اور رکاوٹوں پر قابو پا لیا ہے اور اپنے آپ کو جیتنے کی پوزیشن میں کھڑا کیا ہے۔ لیکن، دونوں میں بعض کمزوریاں رہ گئی ہیں جو اُن کے مدّ مقابل کی کامیابی کا باعث بن سکتی ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ رامنی نے ووٹروں کے بعض طبقوں میں اوبامہ کے مقابلے میں زیادہ مقبولیت حاصل کر لی ہے۔ مثلاً سفید فام، عمررسیدہ اور کالج کی تعلیم مکمل کرنے والے ووٹروں میں ایک اور محاذ پر بھی اُن کی کامیابی نمایاں ہے،500 سے زیادہ سابق ایڈمرلوں اور جنرلوں نے رامنی کی حمائت کا اعلان کردیا ہے ۔
اُدھر اوبامہ کی اچھی انتظامی کارکردگی کا اب بھی ووٹروں کا ایک بھاری تناسُب معترف ہے۔ اُن میں افریقی امریکی ، ہسپانوی زبان بولنے والے اور خواتین شامل ہیں اور اخبار کا خیال ہے کہ انتخابات کےنتیجے کا دارو مدار بُہت حد تک اس بات پر ہے کہ سفید فام ، ہسپانوی زبان بولنے والے اور افریقی امریکی ووٹروں کے ووٹ ڈالنے کا کیا تناسُب ہوگا۔
’بوسٹن گلوب‘ اخبار کہتا ہے کہ جن ریاستوں میں مقابلہ سخت ہے ، اُن میں سے بیشتر میں اوبامہ کو فوقیت حاصل ہے۔
اور اُنہیں ریاستوں میں انہوں نے اپنے آخری انتخا بی جلسے منعقد کئے ہیں اور اخبار کہتا ہے کہ ایک آخری استصواب کے بعد پٕو ریسرچ سینٹر کی اتوار کے روز یہ پیش گوئی تھی کہ پُورے ملک میں مجموعی طور پر جتنے ووٹ ڈالے جائیں گےاُن میں سے رامنی کے 47 فیصد کے مقابلے میں اوبامہ کو 50فی صد کے برتری حاصل ہوگی۔ اخبار کہتا ہے کہ چار سال قبل پٕو کی ایسی ہی ایک پیش گوئی با لکل درست ثابت ہوئی تھی۔
اُدھر امریکی کے مشرقی ساحلی علاقوں میں جو سینڈی نامی قیامت خیز طوفان آیا تھا۔ کیا اُس کی وجہ سے ری پبلکن مٹ رامنی کی انتخابی مہم کو نقصان پہنچا ہے ۔ اس پر ’نیو یارک ٹائمز ‘کہتا ہے کہ بعض تجزیہ کار اس طوفان کو ایک ایسے واقعے کی نظر سے دیکھتے ہیں، جس نے صدر اوبامہ کی پہلے صدارتی مباحثے میں بھاری لغزٴش کے بعد اُنہیں اپنی انتخابی مہٕم کو سنبھالا دینے مدد دی ہے ۔
اور بعض ری پبلکن تو یہاں تک جانے کو تیار ہیں کہ اگر رامنی انتخاب ہار گئے تو اُس کی ایک وجہ تو یہی طوفان ہوگا، اور دوسری وجہ یہ ہے کہ نیو جرسی کے ری پبلکن گورنر کرٕس کرٕسٹی اور دوسرے عہدہ داروں نے اوبامہ کی طوفان سے نمٹنے کی کوششوں کی تعریف کی۔اخبار کے خیال میں اس تھیوری میں تھوڑا بُہت وزن ہے۔
پچھلے تین روز کے دوران رائے عامّہ کے جو جائزے لئے گئے ہیں اُن میں پہلے صدارتی مباحثے کے بعد مسٹر اوبامہ کے پوائنٹس میں یقینی طور پر سب سے زیادہ ا ضافہ ہوا ہے اور جن ریاستوں میں مقابلہ سخت ہے اُن میں سے بھاری اکثریت اُن ریاستوں کی ہے ، جن میں مسٹر اوبامہ کوسبقت حا صل ہو گئی ہے ۔ اور جہاں تک قومی سطح پر کئے گئے جائزوں کا تعلّق ہے ، اُن میں سے کوئی بھی جائزہ ایسا نہیں ہے جس میں رامنی کو سبقت حاصل ہو۔ اگرچہ بعض جائزوں کے مطابق دونوں امید وار برابر برابر ہیں۔ لیکن اخبار کو اس سے اتفاق نہیں ہے کہ اوبامہ کی قسمت جو بدلی ہے اس کے لئے انہیں سینڈی کا مرہونٕ منت ہونا چاہئیے۔
اخبار کہتا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ دوسرے اور تیسرے صدارتی مباحثے میں اوبامہ کو فاتح قرار دیا گیا تھا، جس کے بعد اُن کی مقبولیت کا گراف ویسے ہی اُوپر جا رہا تھا۔
’وال سٹریٹ جنرل‘ اور ’این بی سی‘ نے متوقّع ووٹروں کا جو جائزہ لیا ہے اُس کے مطابق، مسٹر اوبامہ، مٹ رامنی سے بال بھر آگے ہیں۔اُن کے حامیوں کا تناسُب 48 فیصد ہے اور اُن کے حریف مٹ رامنی کا47 فیصد ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، انتخابات کے نتیجے کا دارومدار بہت حد تک اس بات پر ہوگا کہ سفید فام، ہسپانوی زبان بولنے والے اور افریقی امریکی ووٹروں کے ووٹ ڈالنے کا کیا تناسب ہے ......
’وال سٹریٹ جرنل‘ کا کہنا ہے کہ جن ریاستوں میں مقابلہ سخت ہے، مثلاً ورجنیا اور اوہایو سے لے کر نیو ہیم شائر، اور پینسلوینیہ بلکہ مشی گن تک، اُن سب میں مقابلہ اور بھی سخت ہو گیا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ قومی سطح پر اُس نے جو جائزے لئے ہیں اُن سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں امّید واروں نے کئی چیلنجوں اور رکاوٹوں پر قابو پا لیا ہے اور اپنے آپ کو جیتنے کی پوزیشن میں کھڑا کیا ہے۔ لیکن، دونوں میں بعض کمزوریاں رہ گئی ہیں جو اُن کے مدّ مقابل کی کامیابی کا باعث بن سکتی ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ رامنی نے ووٹروں کے بعض طبقوں میں اوبامہ کے مقابلے میں زیادہ مقبولیت حاصل کر لی ہے۔ مثلاً سفید فام، عمررسیدہ اور کالج کی تعلیم مکمل کرنے والے ووٹروں میں ایک اور محاذ پر بھی اُن کی کامیابی نمایاں ہے،500 سے زیادہ سابق ایڈمرلوں اور جنرلوں نے رامنی کی حمائت کا اعلان کردیا ہے ۔
اُدھر اوبامہ کی اچھی انتظامی کارکردگی کا اب بھی ووٹروں کا ایک بھاری تناسُب معترف ہے۔ اُن میں افریقی امریکی ، ہسپانوی زبان بولنے والے اور خواتین شامل ہیں اور اخبار کا خیال ہے کہ انتخابات کےنتیجے کا دارو مدار بُہت حد تک اس بات پر ہے کہ سفید فام ، ہسپانوی زبان بولنے والے اور افریقی امریکی ووٹروں کے ووٹ ڈالنے کا کیا تناسُب ہوگا۔
’بوسٹن گلوب‘ اخبار کہتا ہے کہ جن ریاستوں میں مقابلہ سخت ہے ، اُن میں سے بیشتر میں اوبامہ کو فوقیت حاصل ہے۔
اور اُنہیں ریاستوں میں انہوں نے اپنے آخری انتخا بی جلسے منعقد کئے ہیں اور اخبار کہتا ہے کہ ایک آخری استصواب کے بعد پٕو ریسرچ سینٹر کی اتوار کے روز یہ پیش گوئی تھی کہ پُورے ملک میں مجموعی طور پر جتنے ووٹ ڈالے جائیں گےاُن میں سے رامنی کے 47 فیصد کے مقابلے میں اوبامہ کو 50فی صد کے برتری حاصل ہوگی۔ اخبار کہتا ہے کہ چار سال قبل پٕو کی ایسی ہی ایک پیش گوئی با لکل درست ثابت ہوئی تھی۔
اُدھر امریکی کے مشرقی ساحلی علاقوں میں جو سینڈی نامی قیامت خیز طوفان آیا تھا۔ کیا اُس کی وجہ سے ری پبلکن مٹ رامنی کی انتخابی مہم کو نقصان پہنچا ہے ۔ اس پر ’نیو یارک ٹائمز ‘کہتا ہے کہ بعض تجزیہ کار اس طوفان کو ایک ایسے واقعے کی نظر سے دیکھتے ہیں، جس نے صدر اوبامہ کی پہلے صدارتی مباحثے میں بھاری لغزٴش کے بعد اُنہیں اپنی انتخابی مہٕم کو سنبھالا دینے مدد دی ہے ۔
اور بعض ری پبلکن تو یہاں تک جانے کو تیار ہیں کہ اگر رامنی انتخاب ہار گئے تو اُس کی ایک وجہ تو یہی طوفان ہوگا، اور دوسری وجہ یہ ہے کہ نیو جرسی کے ری پبلکن گورنر کرٕس کرٕسٹی اور دوسرے عہدہ داروں نے اوبامہ کی طوفان سے نمٹنے کی کوششوں کی تعریف کی۔اخبار کے خیال میں اس تھیوری میں تھوڑا بُہت وزن ہے۔
پچھلے تین روز کے دوران رائے عامّہ کے جو جائزے لئے گئے ہیں اُن میں پہلے صدارتی مباحثے کے بعد مسٹر اوبامہ کے پوائنٹس میں یقینی طور پر سب سے زیادہ ا ضافہ ہوا ہے اور جن ریاستوں میں مقابلہ سخت ہے اُن میں سے بھاری اکثریت اُن ریاستوں کی ہے ، جن میں مسٹر اوبامہ کوسبقت حا صل ہو گئی ہے ۔ اور جہاں تک قومی سطح پر کئے گئے جائزوں کا تعلّق ہے ، اُن میں سے کوئی بھی جائزہ ایسا نہیں ہے جس میں رامنی کو سبقت حاصل ہو۔ اگرچہ بعض جائزوں کے مطابق دونوں امید وار برابر برابر ہیں۔ لیکن اخبار کو اس سے اتفاق نہیں ہے کہ اوبامہ کی قسمت جو بدلی ہے اس کے لئے انہیں سینڈی کا مرہونٕ منت ہونا چاہئیے۔
اخبار کہتا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ دوسرے اور تیسرے صدارتی مباحثے میں اوبامہ کو فاتح قرار دیا گیا تھا، جس کے بعد اُن کی مقبولیت کا گراف ویسے ہی اُوپر جا رہا تھا۔