کالم نگار رابن سن کہتے ہیں کہ پوپ فرانسس کے برعکس سنوڈن کو حلیم نہیں کہہ سکتے۔ بقول اُن کے، وہ ’خود پسند ہے، اپنا ڈھنڈورا خود پیٹتا ہے اور اپنا پیغام بھونڈےپن سے دیتا ہے‘
واشنگٹن —
معروف کالم نگار یُوجین رابن سن کہتے ہیں کہ اُن کی دانست میں رواں سال کی شخصیت کے لقب کے لئے دو امیدوار ہیں۔ ایک تو ایک اعشاریہ دو ارب کیتھولک عیسایئوں کے پوپ فرانسس یا پھر امریکی نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کے سابق ملازم, سربستہ رازوں کو افشا کرنے والے، ایڈورڈ سنو ڈن۔
’واشنگٹن پوسٹ‘ میں ایک مضمون میں وہ کہتے ہیں کہ دونوں افراد کے درمیان جو چیز مشترک ہے وُہ یہ ہےکہ دونوں دنیا پر اثرانداز ہونگے۔ پوپ فرانسس کا کلیسا کی طرف سے معاشرتی انصاف پر جو زور ہے، اُس کی وجہ سے دنیا بدل سکتی ہے۔ لیکن، میں لاکھ چاہوں کہ یہ اعزاز پوپ فرانسس کو جانا چاہئے۔ لیکن، سنوڈن نے حکومت کی نگرانی کے پروگرام کو طشت از بام کرکے، یہ اعزاز پہلے ہی حاصل کر لیا ہے۔
مضمون نگار کا کہنا ہے کہ جب فرانسس مارچ کے مہینے میں پاپائے روم بنے، تو اُنہوں نے پوپ کے لئے تعمیر کئے گئے پُر تعیُّش اپارٹمنٹس میں رہنا پسند نہیں کیا، بلکہ ویٹیکن کے مہمان خانوں کے سیدھے سادے کمروں میں قیام کرنے کو ترجیح دی۔
اُن کا حِلم اور دریا دلی، زبان زدِ خلائق عام ہے۔ وُہ روم کی گلیوں کے 300 بے گھر مسکینوں کے ساتھ صبح کا ناشتہ کرتے ہیں، اور کم سن افراد کے قیدخانے کے نوجوان قیدیوں کے پیر دھوتے ہیں۔ اُن کی سب سے حیرت انگیز بات اسقاطِ حمل اور ہم جنس پرستی جیسے امُور کو اُچھالنے کی بجائے سماجی اور معاشرتی انصاف پر زور دینا تھا۔
اپنے معتقدین سے پچاس ہزار الفاظ پر مُشتمل ایک خطاب میں، اُنہوں نے اُس نظرئے کی مذمّت کی، جس کے مطابق، اوپری اقتصادی طبقے سے مراعات نیچے آتی ہیں، اوراُنہوں نے حضرت عیسیٰ کی تعلیمات کی یاد دلائی، جن میں غریبوں اور مسکینیوں سے شفقت کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔
پوپ فرانسس نےکلیسا کی قدامت پسند دفتر شاہی کو جراٴت کے ساتھ جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے۔ چنانچہ، انہیں ایک ایسے پوپ کی حیثیت سے یاد رکھا جائے گا جنہوں نے عدم مساوات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اُسی طرح جیسے پوپ پال دوّم کمیونزم کے خلاف ڈٹ گئے تھے۔
لیکن، رابن سن کہتے ہیں کہ فرانسس کے برعکس سنوڈن کو حلیم نہیں کہہ سکتے۔ وہ خود پسند ہے، اپنا ڈھنڈورا خود پیٹتا ہے اور اپنا پیغام بھونڈےپن سے دیتا ہے۔ لیکن، جیسا کہ رابن سن کہتے ہیں، پیغام ہے خوب۔ سنوڈن کے انکشافات تباہ کُن ہیں، امریکیوں کو اب معلوم ہوگیا ہے کہ اُن کے ٹیلیفون پر بات چیت کو ایک نہائت ہی وسیع ڈیٹابیس پر جمع کیا جا رہا ہے۔ اور اس کے نتیجے میں، ساری دنیا میں مساعی جاری ہیں، تاکہ جو تھوڑی بہت رازداری بچ گئی ہے اُس کا تحفُّظ کیا جائے۔ اب یہ بات بھی طشت از بام ہوگئی ہے کہ عدالت سے خُفیہ احکامات حاصل کرکے فون کمپنیوں اور انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کرنے والے اداروں کو مجبور کیا گیا ہے کہ وُہ خفیہ معلومات حکومت کے حوالے کردیں۔ اور اب، یہ بھی معلوم ہوگیا ہے کہ امریکی نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کی شراکت دار برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی ایسی ہی ایجنسیاں ہیں۔ اب یہ بھی واضح ہے کہ کس طرح ٹیکنالوجی، بچی کھچی رازداری کا خاتمہ کر رہی ہے۔ اور یہ کہ حکومتوں اور مواصلاتی کمپنیوں کو کون سے قدم اُٹھانے پر مجبور کیا جانا چاہئے، تاکہ رازداری کو تحفُّظ فراہم کیا جا سکے۔ چُنانچہ، رابن سن کہتے ہیں کہ ان کے ذہن میں سنوڈن کے سوا کوئی اور نام نہیں آتا، جس نےسنہ2013 پر اپنی اتنی گہری چھاپ ڈالی ہو۔ اس اعتبار سے، ایڈورڈ سنوڈن روان سال کی شخصیت ہے۔
جنوبی سوڈان میں کشت و خوں کی نئی وارداتوں کے بعد، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے متفقہ طور پر اس افریقی ملک میں اقوام متحدہ کی امن فوج کی تعداد لگ بھگ دوگُنی کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے، اُس پر ’واشنگٹن ٹا ئمز‘ اخبار کہتا ہے کہ اس ہفتے امریکی سفیر سیمینتھا پاور نے عالمی ادارے کو بتایا تھا کہ ملک کی ابتر ہوتی ہوئی صورت حال کا تقاضا ہے کہ مزید خوں خرابے کو روکنے اور استحکام کی بحالی کے لئے، فوری قدم اُٹھائے جائیں۔
تشدّد حالیہ دنوں میں بڑھا ہے، جب سابق نائب صدر کِیک مچر کی وفادار فوجوں نے ملک کے صدر سلوا کیر کی حکومت کا تختہ اُلٹنے کی کوشش کی۔ اقوام متحدہ کے عہدہ داروں نے خبردار کیا ہے کہ اس قسم کے حملوں کی وجہ سے وسیع پیمانے کے جرائم ہوسکتے ہیں۔ چنانچہ، عالمی ادارے نے ساڑھے پانچ ہزار سے زیادہ کی اضافی فوج جنوبی سوڈان بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے، جہاں اقوام متحدہ کے ساڑھے سات ہزار امن کار پہلے ہی سے موجود ہیں۔
اُن میں، امریکہ کا 50 فوجی ارکان پر مشتمل عملہ شامل ہے جو صدر اوبامہ کی ہدائت پر جُوبا میں امریکی سفارت خانے جیسے اثاثوں کی حفاظت کے لئے بھیجا گیا تھا۔
ایک امریکی ہیلی کاپٹر، جو عملے کے ارکان کو نکال رہا تھا، گولیوں کی زد میں آگیا، جس میں چار امریکی زخمی ہوگئے، جس کے بعد امریکی صدر نے کانگریس کو بتایا کہ اگر لڑائی کی صورت حال مزید خراب ہوگئی، تو وُہ مزید ساز و سامان جنوبی سوڈان بھیجیں گے۔ ابھی تک یہ نہیں معلوم کہ لڑائی میں کُل کتنے لوگ مارے گئے ہیں۔
ادھر امریکی محکمہٴخارجہ کی یہ کوشش جاری ہے کہ جنوبی سُوڈان کے دونوں فریقوں کے مابین ایک سیاسی تصفیہ ہوجائے، امریکی عہدہ داروں نے کہا ہے کہ وہ اس بُحران کو سلجھانے کے لئے ایک سفارتی حل کو فوجی حل پر ترجیح دیں گے۔
13 دسمبر کو یمن پر ایک امریکی ڈرون حملے میں کم از کم 13 افراد ہلاک ہوئے تھے، جن میں سے کم از کم 12 افراد ایسے تھے جو ایک شادی کی پارٹی میں جار ہے تھے۔ اس پر ’پٹس برگ گزٹ‘ ایک ادرائے میں کہتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ ان میں سے کُچھ لوگ عسکریت پسند ہوں، لیکن باقی تو معصوم شہری تھے۔
اخبار کہتا ہے کہ افغانستان، پاکستان، صومالیہ اور یمن جیسے ملکوں میں جہاں ایسے ڈرون حملے کئے جاتے ہیں، ان کی وجہ سے بے شمار دشمن پیدا ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ، ایسا لگ رہا ہے کہ صدر اوبامہ کے 23 مئی کے اُس خطاب کا احترام نہیں کیا جا رہا جس میں اُنہوں نے عہد کیا تھا کہ اُس وقت تک ایسے ڈرون حملے ہرگز نہیں کئے جائیں گے، جب تک یہ بات یقینی نہیں بنائی جاتی کہ ان میں کوئی معصوم شہری ہلاک یا زخمی نہیں ہوگا۔
’واشنگٹن پوسٹ‘ میں ایک مضمون میں وہ کہتے ہیں کہ دونوں افراد کے درمیان جو چیز مشترک ہے وُہ یہ ہےکہ دونوں دنیا پر اثرانداز ہونگے۔ پوپ فرانسس کا کلیسا کی طرف سے معاشرتی انصاف پر جو زور ہے، اُس کی وجہ سے دنیا بدل سکتی ہے۔ لیکن، میں لاکھ چاہوں کہ یہ اعزاز پوپ فرانسس کو جانا چاہئے۔ لیکن، سنوڈن نے حکومت کی نگرانی کے پروگرام کو طشت از بام کرکے، یہ اعزاز پہلے ہی حاصل کر لیا ہے۔
مضمون نگار کا کہنا ہے کہ جب فرانسس مارچ کے مہینے میں پاپائے روم بنے، تو اُنہوں نے پوپ کے لئے تعمیر کئے گئے پُر تعیُّش اپارٹمنٹس میں رہنا پسند نہیں کیا، بلکہ ویٹیکن کے مہمان خانوں کے سیدھے سادے کمروں میں قیام کرنے کو ترجیح دی۔
اُن کا حِلم اور دریا دلی، زبان زدِ خلائق عام ہے۔ وُہ روم کی گلیوں کے 300 بے گھر مسکینوں کے ساتھ صبح کا ناشتہ کرتے ہیں، اور کم سن افراد کے قیدخانے کے نوجوان قیدیوں کے پیر دھوتے ہیں۔ اُن کی سب سے حیرت انگیز بات اسقاطِ حمل اور ہم جنس پرستی جیسے امُور کو اُچھالنے کی بجائے سماجی اور معاشرتی انصاف پر زور دینا تھا۔
اپنے معتقدین سے پچاس ہزار الفاظ پر مُشتمل ایک خطاب میں، اُنہوں نے اُس نظرئے کی مذمّت کی، جس کے مطابق، اوپری اقتصادی طبقے سے مراعات نیچے آتی ہیں، اوراُنہوں نے حضرت عیسیٰ کی تعلیمات کی یاد دلائی، جن میں غریبوں اور مسکینیوں سے شفقت کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔
پوپ فرانسس نےکلیسا کی قدامت پسند دفتر شاہی کو جراٴت کے ساتھ جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے۔ چنانچہ، انہیں ایک ایسے پوپ کی حیثیت سے یاد رکھا جائے گا جنہوں نے عدم مساوات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اُسی طرح جیسے پوپ پال دوّم کمیونزم کے خلاف ڈٹ گئے تھے۔
لیکن، رابن سن کہتے ہیں کہ فرانسس کے برعکس سنوڈن کو حلیم نہیں کہہ سکتے۔ وہ خود پسند ہے، اپنا ڈھنڈورا خود پیٹتا ہے اور اپنا پیغام بھونڈےپن سے دیتا ہے۔ لیکن، جیسا کہ رابن سن کہتے ہیں، پیغام ہے خوب۔ سنوڈن کے انکشافات تباہ کُن ہیں، امریکیوں کو اب معلوم ہوگیا ہے کہ اُن کے ٹیلیفون پر بات چیت کو ایک نہائت ہی وسیع ڈیٹابیس پر جمع کیا جا رہا ہے۔ اور اس کے نتیجے میں، ساری دنیا میں مساعی جاری ہیں، تاکہ جو تھوڑی بہت رازداری بچ گئی ہے اُس کا تحفُّظ کیا جائے۔ اب یہ بات بھی طشت از بام ہوگئی ہے کہ عدالت سے خُفیہ احکامات حاصل کرکے فون کمپنیوں اور انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کرنے والے اداروں کو مجبور کیا گیا ہے کہ وُہ خفیہ معلومات حکومت کے حوالے کردیں۔ اور اب، یہ بھی معلوم ہوگیا ہے کہ امریکی نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کی شراکت دار برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی ایسی ہی ایجنسیاں ہیں۔ اب یہ بھی واضح ہے کہ کس طرح ٹیکنالوجی، بچی کھچی رازداری کا خاتمہ کر رہی ہے۔ اور یہ کہ حکومتوں اور مواصلاتی کمپنیوں کو کون سے قدم اُٹھانے پر مجبور کیا جانا چاہئے، تاکہ رازداری کو تحفُّظ فراہم کیا جا سکے۔ چُنانچہ، رابن سن کہتے ہیں کہ ان کے ذہن میں سنوڈن کے سوا کوئی اور نام نہیں آتا، جس نےسنہ2013 پر اپنی اتنی گہری چھاپ ڈالی ہو۔ اس اعتبار سے، ایڈورڈ سنوڈن روان سال کی شخصیت ہے۔
جنوبی سوڈان میں کشت و خوں کی نئی وارداتوں کے بعد، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے متفقہ طور پر اس افریقی ملک میں اقوام متحدہ کی امن فوج کی تعداد لگ بھگ دوگُنی کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے، اُس پر ’واشنگٹن ٹا ئمز‘ اخبار کہتا ہے کہ اس ہفتے امریکی سفیر سیمینتھا پاور نے عالمی ادارے کو بتایا تھا کہ ملک کی ابتر ہوتی ہوئی صورت حال کا تقاضا ہے کہ مزید خوں خرابے کو روکنے اور استحکام کی بحالی کے لئے، فوری قدم اُٹھائے جائیں۔
تشدّد حالیہ دنوں میں بڑھا ہے، جب سابق نائب صدر کِیک مچر کی وفادار فوجوں نے ملک کے صدر سلوا کیر کی حکومت کا تختہ اُلٹنے کی کوشش کی۔ اقوام متحدہ کے عہدہ داروں نے خبردار کیا ہے کہ اس قسم کے حملوں کی وجہ سے وسیع پیمانے کے جرائم ہوسکتے ہیں۔ چنانچہ، عالمی ادارے نے ساڑھے پانچ ہزار سے زیادہ کی اضافی فوج جنوبی سوڈان بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے، جہاں اقوام متحدہ کے ساڑھے سات ہزار امن کار پہلے ہی سے موجود ہیں۔
اُن میں، امریکہ کا 50 فوجی ارکان پر مشتمل عملہ شامل ہے جو صدر اوبامہ کی ہدائت پر جُوبا میں امریکی سفارت خانے جیسے اثاثوں کی حفاظت کے لئے بھیجا گیا تھا۔
ایک امریکی ہیلی کاپٹر، جو عملے کے ارکان کو نکال رہا تھا، گولیوں کی زد میں آگیا، جس میں چار امریکی زخمی ہوگئے، جس کے بعد امریکی صدر نے کانگریس کو بتایا کہ اگر لڑائی کی صورت حال مزید خراب ہوگئی، تو وُہ مزید ساز و سامان جنوبی سوڈان بھیجیں گے۔ ابھی تک یہ نہیں معلوم کہ لڑائی میں کُل کتنے لوگ مارے گئے ہیں۔
ادھر امریکی محکمہٴخارجہ کی یہ کوشش جاری ہے کہ جنوبی سُوڈان کے دونوں فریقوں کے مابین ایک سیاسی تصفیہ ہوجائے، امریکی عہدہ داروں نے کہا ہے کہ وہ اس بُحران کو سلجھانے کے لئے ایک سفارتی حل کو فوجی حل پر ترجیح دیں گے۔
13 دسمبر کو یمن پر ایک امریکی ڈرون حملے میں کم از کم 13 افراد ہلاک ہوئے تھے، جن میں سے کم از کم 12 افراد ایسے تھے جو ایک شادی کی پارٹی میں جار ہے تھے۔ اس پر ’پٹس برگ گزٹ‘ ایک ادرائے میں کہتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ ان میں سے کُچھ لوگ عسکریت پسند ہوں، لیکن باقی تو معصوم شہری تھے۔
اخبار کہتا ہے کہ افغانستان، پاکستان، صومالیہ اور یمن جیسے ملکوں میں جہاں ایسے ڈرون حملے کئے جاتے ہیں، ان کی وجہ سے بے شمار دشمن پیدا ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ، ایسا لگ رہا ہے کہ صدر اوبامہ کے 23 مئی کے اُس خطاب کا احترام نہیں کیا جا رہا جس میں اُنہوں نے عہد کیا تھا کہ اُس وقت تک ایسے ڈرون حملے ہرگز نہیں کئے جائیں گے، جب تک یہ بات یقینی نہیں بنائی جاتی کہ ان میں کوئی معصوم شہری ہلاک یا زخمی نہیں ہوگا۔