واشنگٹن —
امریکی ٹیکنالوجی کےآٹھ اہم اداروں نے صدر براک اوباما اور کانگریس سے مطالبہ کیا ہے کہ امریکی نگرانی کے پروگرام، جِن کی رو سے امریکی حکومت کو بہت سارے اختیارات حاصل ہیں، اُن پر روک لگانے کے لیے نئی قانون سازی کی جائے۔
اِن اداروں نے پیر کے روز اخبارات کے پورے صفحے پر شائع ہونے والے ایک اشتہار میں کہا ہے کہ متعدد ممالک میں ریاست کے لیے کی جانے والی جاسوسی کا انداز زور پکڑ رہا ہے، جب کہ فرد کے حقوق صلب ہو رہے ہیں۔
ٹیکنالوجی کے اِن اداروں کے بقول، نگرانی کا پروگرام آزادی کے اُن حقوق کی خلاف ورزی ہے، جِن کے ہم سب متمنی ہیں، اور، تبدیلی کا وقت آگیا ہے۔
جِن اداروں نے یہ عام اپیل شائع کی ہے ، اُن میں سے کچھ ٹیکنالوجی کی دنیا کے معروف ترین نام ہیں، مثلاً گوگل، ایپل، مائکروسافٹ، اے او ایل، فیس بُک، یاہو، ٹوئٹر اور لنِکڈ اِن۔
حالیہ مہینوں کے دوران سامنے آنے والے اِن انکشافات سے کہ امریکی نگرانی کے پروگرام کا دائرہ وسیع تر نوعیت کا ہے، اُنھیں پریشانی لاحق ہے۔ یہ انکشافات نیشنل سکیورٹی کے امریکی ادارے کے ایک سابق اہل کار، ایڈورڈ سنوڈن کی طرف سے افشاٴ کی گئی بہت سی دستاویزات کے بعد سامنے آئے ہیں۔
اُنھوں نے روس میں سیاسی پناہ لے لی ہے، باوجود یہ کہ امریکہ نے مخبری کے الزامات میں اُن کی ملک بدری کا مطالبہ کر رکھا ہے۔
چند دستاویزات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نیشنل سکیورٹی ایجنسی (این ایس اے) نے مبینہ طور پر ابلاغ کے لِنکس کو توڑا ہے، جو گوگل اور یاہو کو دنیا بھر کے ’ڈیٹا سینٹرز‘ کو ملاتے ہیں۔
تاہم، دیگر دستاویزات سے اس بات کا پتا چلتا ہے کہ مبینہ طور پر مائکروسافٹ نے حکومت کے ساتھ مل کر ’اِنکرپشن مکینزمز‘ کے حصار کو توڑا ، جِن کی مدد سے انٹرنیٹ صارفین کی رازداری کی حفاظت کا کام سرانجام دیا جاتا ہے۔
اپنے کھلے خط میں اِن آٹھ اداروں کا کہنا ہے کہ وہ اپنے صارفین کے ڈیٹا کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے اپنا دھیان مرکوز کیے ہوئے ہیں، تاکہ اُن کے بقول، ہمارے نیٹ ورکس پر غیر قانونی نگرانی روکی جا سکے۔
اُنھوں نے امریکہ پر زور دیا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ قانون کے ذریعے نگرانی کی حکومتی کوششوں پر واضح پابندی لگائی جاسکے، اور یہ اختیار حکومت کو درپیش قومی سلامتی کے خطرات کی ’مناسبت‘ کے مطابق ہو۔
کانگریس کے قانون ساز نگرانی کے حوالے سے کئی پابندیاں عائد کرنے پر غور کر رہے ہیں، لیکن ابھی تک کوئی اقدام نہیں کیا۔
اِن اداروں نے پیر کے روز اخبارات کے پورے صفحے پر شائع ہونے والے ایک اشتہار میں کہا ہے کہ متعدد ممالک میں ریاست کے لیے کی جانے والی جاسوسی کا انداز زور پکڑ رہا ہے، جب کہ فرد کے حقوق صلب ہو رہے ہیں۔
ٹیکنالوجی کے اِن اداروں کے بقول، نگرانی کا پروگرام آزادی کے اُن حقوق کی خلاف ورزی ہے، جِن کے ہم سب متمنی ہیں، اور، تبدیلی کا وقت آگیا ہے۔
جِن اداروں نے یہ عام اپیل شائع کی ہے ، اُن میں سے کچھ ٹیکنالوجی کی دنیا کے معروف ترین نام ہیں، مثلاً گوگل، ایپل، مائکروسافٹ، اے او ایل، فیس بُک، یاہو، ٹوئٹر اور لنِکڈ اِن۔
حالیہ مہینوں کے دوران سامنے آنے والے اِن انکشافات سے کہ امریکی نگرانی کے پروگرام کا دائرہ وسیع تر نوعیت کا ہے، اُنھیں پریشانی لاحق ہے۔ یہ انکشافات نیشنل سکیورٹی کے امریکی ادارے کے ایک سابق اہل کار، ایڈورڈ سنوڈن کی طرف سے افشاٴ کی گئی بہت سی دستاویزات کے بعد سامنے آئے ہیں۔
اُنھوں نے روس میں سیاسی پناہ لے لی ہے، باوجود یہ کہ امریکہ نے مخبری کے الزامات میں اُن کی ملک بدری کا مطالبہ کر رکھا ہے۔
چند دستاویزات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نیشنل سکیورٹی ایجنسی (این ایس اے) نے مبینہ طور پر ابلاغ کے لِنکس کو توڑا ہے، جو گوگل اور یاہو کو دنیا بھر کے ’ڈیٹا سینٹرز‘ کو ملاتے ہیں۔
تاہم، دیگر دستاویزات سے اس بات کا پتا چلتا ہے کہ مبینہ طور پر مائکروسافٹ نے حکومت کے ساتھ مل کر ’اِنکرپشن مکینزمز‘ کے حصار کو توڑا ، جِن کی مدد سے انٹرنیٹ صارفین کی رازداری کی حفاظت کا کام سرانجام دیا جاتا ہے۔
اپنے کھلے خط میں اِن آٹھ اداروں کا کہنا ہے کہ وہ اپنے صارفین کے ڈیٹا کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے اپنا دھیان مرکوز کیے ہوئے ہیں، تاکہ اُن کے بقول، ہمارے نیٹ ورکس پر غیر قانونی نگرانی روکی جا سکے۔
اُنھوں نے امریکہ پر زور دیا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ قانون کے ذریعے نگرانی کی حکومتی کوششوں پر واضح پابندی لگائی جاسکے، اور یہ اختیار حکومت کو درپیش قومی سلامتی کے خطرات کی ’مناسبت‘ کے مطابق ہو۔
کانگریس کے قانون ساز نگرانی کے حوالے سے کئی پابندیاں عائد کرنے پر غور کر رہے ہیں، لیکن ابھی تک کوئی اقدام نہیں کیا۔