’سیاست کسی بھی وجہ سے نہیں رُکتی۔ اور جہاں دونوں صدارتی امید وار اِس طوفان کا مقابلہ کرنے کی طرف پوری توجہ دے رہے ہیں، وہاں ٹیلی وژن پر اُن کے انتخابی اشتہار معمول کے مطابق چل رہے ہیں‘: کرسچن سائینس مانٹر
امریکی صدارتی انتخابات میں مُشکل سے ہفتہ بھر رہتا ہے اور قیامت خیز طوفان سینڈی نے دونوں صدارتی امیدواوں کا پروگرام درہم برہم کر دیا ہے۔ اور جیسا کہ ’کرسچن سائینس مانٹر‘ کہتا ہے دونوں صدر اوبامہ او ر مٹ رامنی اپنے اپنے حامیوں سے ریڈ کراس کے لئے چندے کی اپیل کر رہے ہیں۔
لیکن، جیساکہ اخبار کہتا ہے، سیاست کسی بھی وجہ سے نہیں رُکتی۔ اور جہاں دونوں امید وار اس طوفان کا مقابلہ کرنے کی طرف پوری توجہ دے رہے ہیں وہاں ٹیلی وژن پر ان کے انتخابی اشتہار معمول کے مطابق چل رہے ہیں۔ اِس سے ممکنہ فائدہ حاصل کرنے اور نقصان کو کم سے کم کرنے بھی کوشش جاری ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ صدر اوبامہ کو اپنے عہدے سے امکانی فائدہ ہو سکتا ہے۔ انہوں نے قوم کے نام ایک خطاب میں طوفان کی زد میں آنے والے لوگوں سے اس آفت ناگہانی سے نمٹنے کے لئے ریاستی اور مقامی انتظامیہ سے مکمل تعاون کی اپیل کی ہےاور اُنہوں نے انتخاب کی بات اس وقت تک نہیں کی جب تک ایک رپورٹر نے سوال نہیں کیا۔
اخبار نے کہا ہے کہ اس طوفا ن سے اُن کو سیاسی خطرہ بھی ہو سکتاہے۔
پرنسٹن یونیورسٹی کے پروفیسر جُولین زیلی زرکہتے ہیں کہ اوبامہ جارج ڈبلیو بُش کی روش پر نہیں جانا چاہیں گے،جوکٹرینا نامی طوفان سےنمٹنے میں ناکامی کی وجہ سے نااہلیت کی ایک علامت بن گئے تھے۔اسی طرح مسٹر رامنی اس کے علاوہ کُچھ نہیں کر سکتے کہ دیکھیں کہ اوبامہ اس سے کیسے نمٹتے ہیں اورلوگوں کا اس پر کیا ردّعمل ہے۔
عالمی حرارت کے مسئلے کی طرف بڑھتی ہوئی غفلت پر افسوس کرتے ہوئے ’شکاگو سن ٹائمز‘ اخبار کہتاہےکہ امریکی صدارتی مباحثوں پر مجموعی طور پر ساڑھے چار گھنٹے صرف کئے گئے۔ لیکن، اس اہم مسئلے کا ایک بار بھی ذکر نہیں کیا گیا۔
اخبار کہتا ہے کہ عالمی حرارت کی حقیقت کو جُھٹلانے والوں نے حالیہ برسوں میں بیروزگاری کے مسئلے پر اس قدر کامیاب مہم چلائی ہےکہ باوجودیکہ یہ مسلّمہ وسیع پیمانے پر تسلیم کیا جاتا ہے کہ اس کی صداقت پر شکوک و شبہات کئے جانے لگے ہیں۔لیکن اخبار کہتا ہےکہ سائینس کی رُو سے اس میں شک کرنے کی کوئی گُنجائش نہیں ہے۔ عالمی حرارت ایک حقیقت ہے، اور 2008 کی انتخابی مہم میں مسٹر اوبامہ نے اس پر قابو پانے کو ترجیحی مقاصد میں شامل کیا تھا، لیکن رواں انتخابی مہم کے دوران ان کی توجّہ توانائی میں خود کفالت اور روزگارپر مرکو ز رہی ہے۔اِس کے علاوہ ان کا زور شمسی توانائی اور ہوا سے پیدا کی جانے والی توانائی پر بھی رہا ہے جس سے روزگار بھی بڑھے گا۔ ری پبلکن امیدوار مٹ رامنی کا موقف ہے کہ یہ صنعتیں خود بہ خود پھیلیں گی اگرحکومت اورضابطے ان کی راہ میں حائل نہ ہوں۔
دونوں امید وار تیل اور گیس کی پیداوار بڑھانے کی بات کر رہے ہیں، جن دونوں سے عالمی حرارت میں اضافہ ہوتا ہے۔ چناچہ، اخبار کہتا ہے کہ جو بھی امید وار انتخاب جیتتا ہے اس کے لئے عالمی توانائی ایک مسئلہ بھی ہوگی اور اس سے نمٹنے کا موقع بھی۔
مسٹر اوبامہ کی میعاد صدارت میں مزید چار سال کی حمائت میں اخبار’ کینسس سٹی سٹار‘ کہتا ہےکہ انہوں نے جب صدارت باگ ڈور سنبھالی تو اُس وقت قومی معیشت دردوکرب میں مُبتلا تھی اور ری پبلکن پارٹی ہر قیمت پر پر تُلی ہوئی تھی کہ اُنہیں کسی بھی حال میں صدارت کی دوسری میعاد نصیب نہ ہو۔
اخبار کہتا ہے کہ ان مشکلات کے باوجود، اُنہوں نے ہمّت نہ ہاری اور مستقل مزا جی کا دامن نہ چھوڑا۔ ’اُن کی سیاسی پالیسیا ں متّوسط طبقے کے لئے مُمٕد و مُعاوٕن ثابت ہوئیں، اور اُنہوں نے سنگین اقتصادی سرد بازاری کو مزید بگڑنے نہیں دیا ، اور اُن کی قیادت میں اہم قانون سازی کی گئی‘ ۔
اخبار مزید کہتا ہے کہ، ’ اُن کے اہم کارناموں میں، عراق کی جنگ کا خاتمہ ، افغانستان سے فوجوں کی واپسی کی منصوبہ بندی، امریکہ کے سب سے بڑے دُشمن اوسامہ بن لادن کو ٹھکانے لگانا،متوسّط طبقے کے ٹیکسوں میں کمی ، صارفین اور خواتین کے مفادات کا تحفّظ، تعلیم اور سایئنس کا فروغ، اور صحت کی نگہداشت کا اہم قانون شامل ہیں‘ ۔
لیکن، جیساکہ اخبار کہتا ہے، سیاست کسی بھی وجہ سے نہیں رُکتی۔ اور جہاں دونوں امید وار اس طوفان کا مقابلہ کرنے کی طرف پوری توجہ دے رہے ہیں وہاں ٹیلی وژن پر ان کے انتخابی اشتہار معمول کے مطابق چل رہے ہیں۔ اِس سے ممکنہ فائدہ حاصل کرنے اور نقصان کو کم سے کم کرنے بھی کوشش جاری ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ صدر اوبامہ کو اپنے عہدے سے امکانی فائدہ ہو سکتا ہے۔ انہوں نے قوم کے نام ایک خطاب میں طوفان کی زد میں آنے والے لوگوں سے اس آفت ناگہانی سے نمٹنے کے لئے ریاستی اور مقامی انتظامیہ سے مکمل تعاون کی اپیل کی ہےاور اُنہوں نے انتخاب کی بات اس وقت تک نہیں کی جب تک ایک رپورٹر نے سوال نہیں کیا۔
اخبار نے کہا ہے کہ اس طوفا ن سے اُن کو سیاسی خطرہ بھی ہو سکتاہے۔
پرنسٹن یونیورسٹی کے پروفیسر جُولین زیلی زرکہتے ہیں کہ اوبامہ جارج ڈبلیو بُش کی روش پر نہیں جانا چاہیں گے،جوکٹرینا نامی طوفان سےنمٹنے میں ناکامی کی وجہ سے نااہلیت کی ایک علامت بن گئے تھے۔اسی طرح مسٹر رامنی اس کے علاوہ کُچھ نہیں کر سکتے کہ دیکھیں کہ اوبامہ اس سے کیسے نمٹتے ہیں اورلوگوں کا اس پر کیا ردّعمل ہے۔
عالمی حرارت کے مسئلے کی طرف بڑھتی ہوئی غفلت پر افسوس کرتے ہوئے ’شکاگو سن ٹائمز‘ اخبار کہتاہےکہ امریکی صدارتی مباحثوں پر مجموعی طور پر ساڑھے چار گھنٹے صرف کئے گئے۔ لیکن، اس اہم مسئلے کا ایک بار بھی ذکر نہیں کیا گیا۔
اخبار کہتا ہے کہ عالمی حرارت کی حقیقت کو جُھٹلانے والوں نے حالیہ برسوں میں بیروزگاری کے مسئلے پر اس قدر کامیاب مہم چلائی ہےکہ باوجودیکہ یہ مسلّمہ وسیع پیمانے پر تسلیم کیا جاتا ہے کہ اس کی صداقت پر شکوک و شبہات کئے جانے لگے ہیں۔لیکن اخبار کہتا ہےکہ سائینس کی رُو سے اس میں شک کرنے کی کوئی گُنجائش نہیں ہے۔ عالمی حرارت ایک حقیقت ہے، اور 2008 کی انتخابی مہم میں مسٹر اوبامہ نے اس پر قابو پانے کو ترجیحی مقاصد میں شامل کیا تھا، لیکن رواں انتخابی مہم کے دوران ان کی توجّہ توانائی میں خود کفالت اور روزگارپر مرکو ز رہی ہے۔اِس کے علاوہ ان کا زور شمسی توانائی اور ہوا سے پیدا کی جانے والی توانائی پر بھی رہا ہے جس سے روزگار بھی بڑھے گا۔ ری پبلکن امیدوار مٹ رامنی کا موقف ہے کہ یہ صنعتیں خود بہ خود پھیلیں گی اگرحکومت اورضابطے ان کی راہ میں حائل نہ ہوں۔
دونوں امید وار تیل اور گیس کی پیداوار بڑھانے کی بات کر رہے ہیں، جن دونوں سے عالمی حرارت میں اضافہ ہوتا ہے۔ چناچہ، اخبار کہتا ہے کہ جو بھی امید وار انتخاب جیتتا ہے اس کے لئے عالمی توانائی ایک مسئلہ بھی ہوگی اور اس سے نمٹنے کا موقع بھی۔
مسٹر اوبامہ کی میعاد صدارت میں مزید چار سال کی حمائت میں اخبار’ کینسس سٹی سٹار‘ کہتا ہےکہ انہوں نے جب صدارت باگ ڈور سنبھالی تو اُس وقت قومی معیشت دردوکرب میں مُبتلا تھی اور ری پبلکن پارٹی ہر قیمت پر پر تُلی ہوئی تھی کہ اُنہیں کسی بھی حال میں صدارت کی دوسری میعاد نصیب نہ ہو۔
اخبار کہتا ہے کہ ان مشکلات کے باوجود، اُنہوں نے ہمّت نہ ہاری اور مستقل مزا جی کا دامن نہ چھوڑا۔ ’اُن کی سیاسی پالیسیا ں متّوسط طبقے کے لئے مُمٕد و مُعاوٕن ثابت ہوئیں، اور اُنہوں نے سنگین اقتصادی سرد بازاری کو مزید بگڑنے نہیں دیا ، اور اُن کی قیادت میں اہم قانون سازی کی گئی‘ ۔
اخبار مزید کہتا ہے کہ، ’ اُن کے اہم کارناموں میں، عراق کی جنگ کا خاتمہ ، افغانستان سے فوجوں کی واپسی کی منصوبہ بندی، امریکہ کے سب سے بڑے دُشمن اوسامہ بن لادن کو ٹھکانے لگانا،متوسّط طبقے کے ٹیکسوں میں کمی ، صارفین اور خواتین کے مفادات کا تحفّظ، تعلیم اور سایئنس کا فروغ، اور صحت کی نگہداشت کا اہم قانون شامل ہیں‘ ۔