وہائٹ ہاؤس کے عہدہ داروں کے بقول، اس کاروائی کا مقصد زیادہ محدود نوعیت کا ہوگا اور اس کا بنیادی مقصد اسد حکومت کو کیمیائی ہتھیار دوبارہ استعمال کرنے سے باز رکھنا ہوگا
شام کے بُحران پر تجزیہ کار ڈائیل مک مینس ’لاس انجلس ٹائمز‘ میں رقمطراز ہیں کہ ایسا لگ رہا ہے کہ شہریوں کے خلاف صدر بشارلاسد کی طرف سے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے جواب میں فوجی کاروائی کرنے کے لئے صدر اوبامہ اب پہلے سے زیادہ تیار ہیں۔
لیکن، اِس کا مقصد اسد حکومت کا تختہ اُلٹنا نہیں ہوگا، باوجودیکہ دو سال سے زیادہ عرصے سے اوبامہ کی یہی خواہش رہی ہے۔
وہائٹ ہاؤس کے عہدہ داروں کے بقول، اس کاروائی کا مقصد زیادہ محدود نوعیت کا ہوگا اور اس کا بنیادی مقصد اسد حکومت کو کیمیائی ہتھیار دوبارہ استعمال کرنے سے باز رکھنا ہوگا۔
تجزیہ کار خیال ہے کہ مسٹر اوبامہ کو کُچھ اور بھی توقعات ہیں۔ مثلاً دوسرے غنیموں، خاص طور پر ایران کی اس خوش فہمی کو دُور کرنا کہ وُہ ریڈلائن کا اعلان کرنے میں سنجیدہ نہیں ہوتے۔ جیسا کہ انہوں نے پچھلے سال شام میں کیمیائی ہتھیارو ں کا استعمال ہونے کے بعد کیا تھا۔ اور ملک کے اندر صدر اوبامہ اُن جنگ باز ناقدین کا مُنہ بھی بند کرنا چاہتے ہیں جو اُن پر زیادہ سخت کاروائی کرنے پر زور دیتے آئے ہیں۔ اور مسٹر اوبامہ کو امید ہے کہ اُن کی فوج یہ کاروائی اس طرح ترتیب دے گی کہ مسٹر اسد کو امریکی افواج اور مشرق وسطیٰ میں اُن کے اتّحادیوں کے خلاف کوئی جوابی کاروائی کرنے سے باز رکھے ۔
مک مینس کہتے ہیں کہ صدر اوبامہ مزائیلوں کے حملوں سےبُہت زیادہ امّیدیں وابستہ کر رہے ہیں۔ امریکی فوجی کاروائی کی بدولت اوّل تو وہ نہ اسد حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے ہیں اور نہ ہی اُن کی فوج کو تباہ کرنا چاہتے ہیں، حتیٰ کہ وہ میدان جنگ میں توازن بھی اس طرح نہیں بدل رہے کہ اس کا جھکاؤ فیصلہ کُن حد تک باغیوں کے حق میں ہوجائے، اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ جو باغی اس وقت اس خلا کا فائدہ اُٹھانے کے لئے سب سے زیادہ منظّم ہیں اُن کا اتّحاد امریکہ کے ساتھ نہیں، بلکہ القاعدہ کے ساتھ ہے۔
امریکی انتظامیہ کے عہدہ داروں کا کہنا ہے کہ کئی مہینوں کے بحث و مباحثے کے بعد جو حکمت عملی اپنائی گئی ہے اُس کے مطابق شام کے باغیوں کے اندر اعتدال پسند اور مغرب کی ہم نوا تنظیموں کو تربیت دینا اور فوجی سازو سامان فراہم کرنا ہے۔ اور توقع کرنا ہے کہ بالآخر اُنہی کا اثرونفوذ بڑھتا جائے گا۔ مقصد یہ ہے کہ نہ صرف اسد حکومت کے خلاف جنگ میں، بلکہ حزب اختلاف کے اندر القاعدہ کے حامی دھڑوں کے مقابلے میں ایسے باغیوں کا پلّہ اتنا بھاری ہو جائے کہ دونوں کیمپوں کے درمیان صلح ہوجائے اور ایک نئی حکومت تشکیل پائے۔
لیکن، جیسا کہ مک مینس کا کہنا ہے، اعتدال پسند عناصر ابھی تک اتنے طاقتور نہیں ہوئے ہیں کہ محاذ جنگ یا سیاسی مذاکرات میں اثر انداز ہو سکیں۔ جس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اس وقت امریکی حکمت عملی کا نصب العین بنیادی طور پر نہائت محدود ہے یعنی ایک طرف اسد حکومت اور دوسر ی طرف القاعدہ کے کیمپ کی کامیابی کو روکنا۔ یعنی، اس امید میں شامی خانہ جنگی کو اس طرح حدود کے اندر رکھا جائے کہ مغرب کے ہم نوا باغیوں کا پلّہ بالآخر بھاری ہو جائے۔
مک مینس کہتے ہیں یہ تصویر امید افزا نہیں ہے اور یہ جنگ کئی سال جاری رہ سکتی ہے جس میں دونوں جانب جانیں ضائع ہوں گی۔ اور آخر میں اعتدال پسند ہار بھی سکتے ہیں۔ لیکن، اس کا متبادل اس سے بھی کہیں بدتر ہوسکتا ہے۔ لہٰذا، مزاحمت ہی وہ واحد متبادل ہے جس میں سب سے کم خرابی ہے۔
امریکی فوجی کاروائی کی صورت میں ایران کی طرف سے کس قسم کے ردّ عمل کی توقع کی جا سکتی ہے۔ اس پر اورین ڈوریل ’یو ایس اے ٹوڈے‘ میں لکھتے ہیں کہ ایران نہ صرف اسرائیل کے خلاف جوابی کاروائی کرسکتا ہے۔ بلکہ، امریکی اتحادیوں، یعنی سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور اردن کے خلاف بھی ایران آبنائے ہُرمُز کو بند کرسکتا ہے، جہاں سے دنیا کی تیل کی رسد کا 20 فی صد گزرتا ہے۔ لیکن، اس خطے میں موجود امریکی فوجیں ان حملوں سے نمٹنے کے لئے تیار کھڑی ہیں۔ اور مصنّف نے بروکنگز انسٹی چیوٹ کی ماہر سُوزن ملونی کے حوالے سے بتایا ہے کہ نئے ایرانی صدر حسن روحانی کے بیانوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں اس بات کا اندازہ ہے کہ اگر ایران امریکہ۔یورپ اور بین الاقوامی مداخلت کی جنگ میں اُلجھ گیا تو اس کے نتیجے میں ان کی حکومت کے جلد خاتمے کی راہ ہموار ہوگی۔
عراق میں تشدّد کی بڑھتی ہوئی وارداتیں اس ملک کے لئے مدد کی متقاضی ہیں۔
اس عنوان سے ’چارلزٹن گزٹ‘ اخبار میں تجزیہ کار محمد خلیل کہتے ہیں کہ عراق ایک بار پھر خانہ جنگی کے دہانے تک پہنچ چکا ہے۔ کار بم دہماکے، قتل عام اور وسیع پیمانے پر ہلاکتوں کی وارداتیں ایک وبا کی صورت اختیار کر گئی ہیں۔ صرف مئی کے مہینے میں 660 افراد ہلاک اور ساڑھے پندرہ سو زخمی کئے گئے تھے۔جولائی میں یہ تعداد بڑھ گئی جب1057 لوگ ہلاک کئے گئے اور تقریباً 24 سو زخمی ہوئے۔ یہ وارداتیں جگہ جگہ ہو رہی ہیں، قہوہ خانے، شادی کی پارٹیاں جنازے، مسجدیں، کھیل کود کے میدان اور مارکیٹیں تک ان سے نہیں بچیں۔ حتیٰ کہ بغداد کے شہریوں نے اس سال عیدالفطر نہ منانے کا فیصلہ کیا، کیونکہ افواہ گرم تھی کہ القاعدہ بغداد میں 100 کار بم دہماکے کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔
مصنّف کا کہنا ہے کہ سنہ 2006 کے بعد سے پہلی بار ایسےفرقہ وارانہ فسادات ہوئے ہیں جس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ نوری المالکی کی حکومت ناکام ہو چکی ہے، دوسرے پڑوسی ملک شام میں پورے زور و شور کے ساتھ خانہ جنگی جاری ہے۔ مصنف نے یاد دلایا ہے کہ بغداد میں امریکی فوج کے ورود پر عراقیوں سے وعدہ کیا گیا تھا کہ ان کا ملک جمہوریت کا شاندار نمونہ اور مشرق وسطیٰ کی معاشی ترقّی کا محور ہوگا۔
لیکن، ہوا اس کے برعکس۔ اس کے دسیوں ہزاروں لوگ ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں، جب کہ اس کے 30 لاکھ بچے یتیم ہو گئے ہیں۔ اور مصنف کی رائے میں صرف امریکہ ہی عراق کو بچا سکتا ہے اور اس طرح دنیا میں اپنی شہرت کو بھی بچا سکتا ہے۔ امریکہ کو شام کی خانہ جنگی کو پر امن اختتام تک پہنچانا ہوگا اور عراق کے بدعنوان سیاست دانوں کو لگام دینی ہوگی۔ عراق میں اس کے پڑوسیوں کی مداخلت کو بند کرانا ہوگا۔ امریکہ کو یہ کاروائی اب اور اس وقت کرنی ہوگی۔ ورنہ عراق میں انتہا پسندوں کی تعداد اس تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے کہ وہ امریکہ کے اندر سیکیورٹی کا مسئلہ بن جائیں گے۔
لیکن، اِس کا مقصد اسد حکومت کا تختہ اُلٹنا نہیں ہوگا، باوجودیکہ دو سال سے زیادہ عرصے سے اوبامہ کی یہی خواہش رہی ہے۔
وہائٹ ہاؤس کے عہدہ داروں کے بقول، اس کاروائی کا مقصد زیادہ محدود نوعیت کا ہوگا اور اس کا بنیادی مقصد اسد حکومت کو کیمیائی ہتھیار دوبارہ استعمال کرنے سے باز رکھنا ہوگا۔
تجزیہ کار خیال ہے کہ مسٹر اوبامہ کو کُچھ اور بھی توقعات ہیں۔ مثلاً دوسرے غنیموں، خاص طور پر ایران کی اس خوش فہمی کو دُور کرنا کہ وُہ ریڈلائن کا اعلان کرنے میں سنجیدہ نہیں ہوتے۔ جیسا کہ انہوں نے پچھلے سال شام میں کیمیائی ہتھیارو ں کا استعمال ہونے کے بعد کیا تھا۔ اور ملک کے اندر صدر اوبامہ اُن جنگ باز ناقدین کا مُنہ بھی بند کرنا چاہتے ہیں جو اُن پر زیادہ سخت کاروائی کرنے پر زور دیتے آئے ہیں۔ اور مسٹر اوبامہ کو امید ہے کہ اُن کی فوج یہ کاروائی اس طرح ترتیب دے گی کہ مسٹر اسد کو امریکی افواج اور مشرق وسطیٰ میں اُن کے اتّحادیوں کے خلاف کوئی جوابی کاروائی کرنے سے باز رکھے ۔
مک مینس کہتے ہیں کہ صدر اوبامہ مزائیلوں کے حملوں سےبُہت زیادہ امّیدیں وابستہ کر رہے ہیں۔ امریکی فوجی کاروائی کی بدولت اوّل تو وہ نہ اسد حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے ہیں اور نہ ہی اُن کی فوج کو تباہ کرنا چاہتے ہیں، حتیٰ کہ وہ میدان جنگ میں توازن بھی اس طرح نہیں بدل رہے کہ اس کا جھکاؤ فیصلہ کُن حد تک باغیوں کے حق میں ہوجائے، اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ جو باغی اس وقت اس خلا کا فائدہ اُٹھانے کے لئے سب سے زیادہ منظّم ہیں اُن کا اتّحاد امریکہ کے ساتھ نہیں، بلکہ القاعدہ کے ساتھ ہے۔
امریکی انتظامیہ کے عہدہ داروں کا کہنا ہے کہ کئی مہینوں کے بحث و مباحثے کے بعد جو حکمت عملی اپنائی گئی ہے اُس کے مطابق شام کے باغیوں کے اندر اعتدال پسند اور مغرب کی ہم نوا تنظیموں کو تربیت دینا اور فوجی سازو سامان فراہم کرنا ہے۔ اور توقع کرنا ہے کہ بالآخر اُنہی کا اثرونفوذ بڑھتا جائے گا۔ مقصد یہ ہے کہ نہ صرف اسد حکومت کے خلاف جنگ میں، بلکہ حزب اختلاف کے اندر القاعدہ کے حامی دھڑوں کے مقابلے میں ایسے باغیوں کا پلّہ اتنا بھاری ہو جائے کہ دونوں کیمپوں کے درمیان صلح ہوجائے اور ایک نئی حکومت تشکیل پائے۔
لیکن، جیسا کہ مک مینس کا کہنا ہے، اعتدال پسند عناصر ابھی تک اتنے طاقتور نہیں ہوئے ہیں کہ محاذ جنگ یا سیاسی مذاکرات میں اثر انداز ہو سکیں۔ جس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اس وقت امریکی حکمت عملی کا نصب العین بنیادی طور پر نہائت محدود ہے یعنی ایک طرف اسد حکومت اور دوسر ی طرف القاعدہ کے کیمپ کی کامیابی کو روکنا۔ یعنی، اس امید میں شامی خانہ جنگی کو اس طرح حدود کے اندر رکھا جائے کہ مغرب کے ہم نوا باغیوں کا پلّہ بالآخر بھاری ہو جائے۔
مک مینس کہتے ہیں یہ تصویر امید افزا نہیں ہے اور یہ جنگ کئی سال جاری رہ سکتی ہے جس میں دونوں جانب جانیں ضائع ہوں گی۔ اور آخر میں اعتدال پسند ہار بھی سکتے ہیں۔ لیکن، اس کا متبادل اس سے بھی کہیں بدتر ہوسکتا ہے۔ لہٰذا، مزاحمت ہی وہ واحد متبادل ہے جس میں سب سے کم خرابی ہے۔
امریکی فوجی کاروائی کی صورت میں ایران کی طرف سے کس قسم کے ردّ عمل کی توقع کی جا سکتی ہے۔ اس پر اورین ڈوریل ’یو ایس اے ٹوڈے‘ میں لکھتے ہیں کہ ایران نہ صرف اسرائیل کے خلاف جوابی کاروائی کرسکتا ہے۔ بلکہ، امریکی اتحادیوں، یعنی سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور اردن کے خلاف بھی ایران آبنائے ہُرمُز کو بند کرسکتا ہے، جہاں سے دنیا کی تیل کی رسد کا 20 فی صد گزرتا ہے۔ لیکن، اس خطے میں موجود امریکی فوجیں ان حملوں سے نمٹنے کے لئے تیار کھڑی ہیں۔ اور مصنّف نے بروکنگز انسٹی چیوٹ کی ماہر سُوزن ملونی کے حوالے سے بتایا ہے کہ نئے ایرانی صدر حسن روحانی کے بیانوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں اس بات کا اندازہ ہے کہ اگر ایران امریکہ۔یورپ اور بین الاقوامی مداخلت کی جنگ میں اُلجھ گیا تو اس کے نتیجے میں ان کی حکومت کے جلد خاتمے کی راہ ہموار ہوگی۔
عراق میں تشدّد کی بڑھتی ہوئی وارداتیں اس ملک کے لئے مدد کی متقاضی ہیں۔
اس عنوان سے ’چارلزٹن گزٹ‘ اخبار میں تجزیہ کار محمد خلیل کہتے ہیں کہ عراق ایک بار پھر خانہ جنگی کے دہانے تک پہنچ چکا ہے۔ کار بم دہماکے، قتل عام اور وسیع پیمانے پر ہلاکتوں کی وارداتیں ایک وبا کی صورت اختیار کر گئی ہیں۔ صرف مئی کے مہینے میں 660 افراد ہلاک اور ساڑھے پندرہ سو زخمی کئے گئے تھے۔جولائی میں یہ تعداد بڑھ گئی جب1057 لوگ ہلاک کئے گئے اور تقریباً 24 سو زخمی ہوئے۔ یہ وارداتیں جگہ جگہ ہو رہی ہیں، قہوہ خانے، شادی کی پارٹیاں جنازے، مسجدیں، کھیل کود کے میدان اور مارکیٹیں تک ان سے نہیں بچیں۔ حتیٰ کہ بغداد کے شہریوں نے اس سال عیدالفطر نہ منانے کا فیصلہ کیا، کیونکہ افواہ گرم تھی کہ القاعدہ بغداد میں 100 کار بم دہماکے کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔
مصنّف کا کہنا ہے کہ سنہ 2006 کے بعد سے پہلی بار ایسےفرقہ وارانہ فسادات ہوئے ہیں جس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ نوری المالکی کی حکومت ناکام ہو چکی ہے، دوسرے پڑوسی ملک شام میں پورے زور و شور کے ساتھ خانہ جنگی جاری ہے۔ مصنف نے یاد دلایا ہے کہ بغداد میں امریکی فوج کے ورود پر عراقیوں سے وعدہ کیا گیا تھا کہ ان کا ملک جمہوریت کا شاندار نمونہ اور مشرق وسطیٰ کی معاشی ترقّی کا محور ہوگا۔
لیکن، ہوا اس کے برعکس۔ اس کے دسیوں ہزاروں لوگ ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں، جب کہ اس کے 30 لاکھ بچے یتیم ہو گئے ہیں۔ اور مصنف کی رائے میں صرف امریکہ ہی عراق کو بچا سکتا ہے اور اس طرح دنیا میں اپنی شہرت کو بھی بچا سکتا ہے۔ امریکہ کو شام کی خانہ جنگی کو پر امن اختتام تک پہنچانا ہوگا اور عراق کے بدعنوان سیاست دانوں کو لگام دینی ہوگی۔ عراق میں اس کے پڑوسیوں کی مداخلت کو بند کرانا ہوگا۔ امریکہ کو یہ کاروائی اب اور اس وقت کرنی ہوگی۔ ورنہ عراق میں انتہا پسندوں کی تعداد اس تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے کہ وہ امریکہ کے اندر سیکیورٹی کا مسئلہ بن جائیں گے۔