امریکی اخبارات سے: 'الفتح' اور 'حماس' کے درمیان مذاکرات

فائل

سنہ 2007 کے بعد مسٹرعباس کی فتح تنظیم اور حماس کے درمیان مصالحت کے چار معاہدے ہو چکے ہیں لیکن یہ سب معاہدے بے سُود رہے۔
اختلافات کا شکار فلسطین کی دو تنظیموں فتح اور حماس کے درمیان صُلح کرانے کی کوشش میں مصر کی دعوت پر ان کے لیڈروں کے درمیان ملاقات ہوئی ہے۔

’نیو یارک ٹائمز‘ کے مطابق فلسطینی انتظامیہ کے صدر محمود عبّاس کی حریف تنظیم حماس کی سیاسی شاخ کے سربراہ خالد مشعل کے ساتھ قاہرہ میں ملاقات ہوئی ہے۔ لیکن ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ آیا وہ اُن اختلافات میں سے کسی ایک کوبھی دُور کرنے میں کامیاب ہوئے یا نہیں، جن کی وجہ سے پچھلے پانچ سال سے اُن کے درمیان جھگڑا چلا آ رہا ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ دونوں لیڈروں کو مصر کے صدر محمد مرسی نے قاہرہ مدُعو کیا تھا۔ انہوں نے دونوں میں صلح کرانے کی کوشش کے تحت پہلے دونوں سے الگ الگ ملاقات کی۔

مسٹر مرسی کو امید تھی کہ وہ سہ طرفہ مذاکرات کرا سکیں گے۔ لیکن ایسا ہو نہ سکا، جس سے بقول اخبار کے لگ رہا ہے کہ اگر کوئی پیش رفت ہوئی ہے، تو وہ بُہت ہی معمولی سی ہوگی۔

سنہ 2007 کے بعد مسٹرعباس کی فتح تنظیم اور حماس کے درمیان مصالحت کے چار معاہدے ہو چکے ہیں لیکن یہ سب بے سُود رہے۔

قاہرہ کی ملاقات کے بعد مسٹرعبّاس نے ایک بیان میں کہا کہ ہم نے پچھلے سال دوحہ اور قاہرہ میں طے پانے والے معاہدوں کے مطابق مصالحت کے اقدامات پر عمل کرنے کے طریقوں پر بات چیت کی۔

قاہرہ کے ان مذاکرات سے پہلے غزّہ کی پٹی پر ایک عظیم اجتماع ہوا تھا جسے بہت سوں نے دونوں فریقوں کے درمیان مصالحت کے حصول کے ایک ذریعے کی نظر سے دیکھا تھا۔

اخبار کہتا ہے کہ اس عمل میں قاہرہ کے کردار کو اس وجہ سے کلیدی اہمیت دی جا رہی ہے، کہ ایک تو وُہ ایک علاقائی طاقت ہے اور دوسرے اُس کے امریکہ اور اسرائیل دونوں کے ساتھ معاہدے ہیں۔

لیکن بہت سے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عسکریت پسند حماس اور معتدل اور مذاکرات پسند فتح تنظیم کے درمیان اس بات پر وسیع خلیج موجود ہے کہ آیا اسرائیل کو تسلیم کیا جائے یا نہیں اور یہ کہ مستقبل کی فلسطینی ریاست کی کیا سرحدیں ہونی چاہیئں۔

چنانچہ مصالحت کے لئے ہونے والے مذاکرات میں زیر بحث موضوع ہیں، دونوں تنظیموں پر مشتمل ایک متحد حکومت، صدارتی اور پارلیمانی انتخابات، اور فلسطین کی تنظیم آزادی کی ترتیب نو، تاکہ اس میں حماس اور دوسری عسکریت پسند تنطیموں کو بھی شامل کیا جائے۔

صدر کرزئی کا دورہ واشنگٹن

افغان صدر حامد کرزئی کے دورہِ واشنگٹن کی غرض وغائت پر 'بالٹی مور سن' میں ایک مضمون میں اس پر بحث کی گئی ہے کہ افغانستان میں اب جو 68 ہزار امریکی فوجی اور دوسرے ملکوں کے 30 ہزار فوجی باقی رہ گئے ہیں، اُنہیں کتنی جلد وہاں سے واپس بلانا چاہئے۔ اور اگلے سال کے اختتام پر کتنی تعداد میں غیر ملکی فوجی افغانستان کے اندر رہنے چاہیئں۔

مضمون نگار مائیکل او ہانیان معروف تحقیقی ادارے ’بروکنگز انسٹی ٹیوشن‘ کے سینئیر فیلو ہیں اور اُن کا خیال ہے کہ فوجوں کی واپسی کے عمل کی رفتار دھیمی کرنی چاہئے۔ کیونکہ یہ ضروری ہے کہ افغان عوام اور پاکستان جیسے مقامات میں دلچسپی رکھنے والی دوسری پارٹیوں کو اس بات کا ثبوت دکھائی دے کہ باہر کی دنیا اور ہمارے افغان دوستوں کے درمیان ایک طویل وقتی شراکت داری قائم ہے۔

فوری طور پر یہ طے کرنا ضروری ہے کہ سنہ 2014 کے بعد کتنی امریکی فوج افغانستان میں رہنی چاہیے۔ مضمون نگار کا خیال ہے کہ سنہ 2015 میں یہ تعداد بیس یا پچیس ہزار ہونی چاہئے، جسے بتدریج کم کر کے سنہ 2018 تک دس ہزار تک لایا جا سکتا ہے۔

مضمون نگار کا یہ بھی خیال ہے کہ صدر کرزئی کے دورے میں تمام مسائل کو حل کرنے کوشش کی بجائے اس پر غور کرنا چاہئے کہ اگلے دو سال میں وہاں کیا کلیدی قدم اُٹھانے کی ضرورت ہے۔

طالبان کے لیے عام معافی؟

اُدھر ’انٹرنیشنل ہیرلڈ ٹری بیون‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق افغان باغیوں کے لیے بعض شرائط پوری کرنے کے عوض عام معافی کا جو اعلان کیا گیا تھا، وہ توقعات پر پورا نہیں اُترا ہے۔

رپورٹ میں درجن بھر سابق باغیوں کے انٹرویوز کا ذکر ہے جو ہتھیارڈال کر معافی مانگنے پر پچھتا رہے ہیں۔ کیونکہ اُن میں سے بیشتر کو شکایت ہے کہ انہیں روزگار میسّر نہیں۔ وہ اپنے گاؤں نہیں جاسکتے کہ ان کی جان کو خطرہ ہے۔ اور وہ محسوس کر رہے ہیں، کہ اُن کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے۔

’انٹرنیشنل ہیرلڈ ٹری بیون‘ کہتا ہے کہ طالبان جنگجؤوں کو ہتھیار ڈالنے پر مائل کرنے کی یہ کوشش دو سال سے جاری ہے۔ اور بہت سے افغان اور مغربی عہدہ داروں کو اعتراف ہے کہ اس کے نتائج مایوس کُن ہیں۔ اور باوجودیکہ پچھلے ایک سال کے دوران دعویٰ کیا گیا ہے کہ عام معافی مانگنے والوں کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے۔

لیکن تشدّد کی وارداتیں برابر بُہت زیادہ ہو رہی ہیں۔ اب تک معافی مانگنے والوں کی تعداد چھ ہزار بتائی گئی ہے لیکن ان میں سے اسّی فی صد کا تعلّق نسبتاً پُر امن مغربی اور شمالی علاقوں سے ہے۔