افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلاٴسےمتعلق صدر اوباما کےاعلان پر’نیو یارک ٹائمز‘ ایک اداریے میں کہتا ہے کہ دس سال کی طویل جنگ کے بعد جس میں ڈیڑھ ہزار سے زیادہ امریکی ہلاک ہوئے اور جس پر 450ارب ڈالر کا خرچ اُٹھا، امریکیوں کی نا اُمیدی بڑھ رہی ہے اور وہ یہ جاننے کے لیے بے چین ہیں کہ باہر نکلنے کا واضح راستہ کیا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ مسٹر اوباما نےجس تعداد اور رفتارمیں فوجوں کی واپسی کا اعلان کیا ہے اُس سے بہت سے امریکی مطمئن نہیں ہوں گے۔
لیکن، اخبار نے صدر کے اِس اعتماد کا خیر مقدم کیا ہےکہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کے اِس انخلا کے وقت امریکہ کی پوزیشن مضبوط ہے،القاعدہ کا کباڑہ کیا جاچکا ہے اور طالبان کو سنگین نقصان پہنچایا گیا ہے۔
اخبار نے خاص طور پر صدر کے اس اعلان پر اطمینان کا اظہار کیا ہے کہ عراق اور افغانستان دونوں میں جنگ کی لہر معدوم ہوتی جارہی ہے۔ البتہ، اخبار کو شکایت ہے کہ صدر نے یہ واضح نہیں کیا کہ آیا اُن کے پاس کوئی قابلِ اعتبار منصوبہ ہے جس کے تحت افغانستان کو کم سے کم اتنا مستحکم کیا جائے جس کے بعد فوجیں نکالی جائیں۔
امریکی انخلا کی بنیاد با صلاحیت افغان فوج کی تعمیر ہونی چاہیئے۔ لیکن، اِس میں کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی ہے۔
اُن کی دلیل زیادہ قابلِ اعتبار ہوتی اگر وہ تسلیم کرتے کہ دراصل مسئلہ عملے کی مسلسل کمی ، جہالت اور ناخواندگی ہے۔
صدر اوباما نے بالوضاحت یہ بھی کہا ہے کہ وہ افغانوں کی قیادت میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کی موافقت میں ہیں۔
’واشنگٹن پوسٹ ‘کہتا ہے کہ افغانستان سے فوجوں کے جلد انخلا کا جواز اُس صورت میں پیدا ہوتا ہے بشرطیکہ وہ انسدادِ دہشت گردی کا منصوبہ ترک کر چکے ہوتے جو سنہ 2009 میں شروع کیا گیا تھا۔
اخبار کا مسٹر اوباما کی اِس بات سے اتفاق ہے کہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت سے اور پاکستان میں امریکی کارروائیوں سے القاعدہ کی تنظیم کمزور ہو گئی ہے اور اُس کی امریکہ پر دوبارہ حملہ کرنے کی صلاحیت گر گئی ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ امریکی انخلا کے بعد طالبان کی افغانستان میں دوبارہ سرگرمیاں تیز ہونے سے اِس خطے میں عدم استحکام بڑھ جانے کا اندیشہ ہے جس میں جوہری ہتھیاروں سے لیس ہندوستان اور پاکستان جیسے ملک ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ اگر افغان حکومت یا اُس کی فوج بیٹھ جاتی ہے تو اِس کا قوی امکان ہے کہ وہ اڈے امریکہ کے ہاتھ سے جاتے رہیں گے جہاں سے وہ القاعدہ کے خلاف ڈرون حملے کرتا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ مسٹر اوباما کا سب سے اعلیٰ جواز ملک کی رائے عامہ ہے اور لوگ جنگ سے عاجز آچکے ہیں۔
اخبار ’یو ایس اے ٹوڈے‘ ایک اداریے میں کہتا ہے کہ تمام اقتصادی، سیاسی اور فوجی ملحوظات کو سامنے رکھتے ہوئے صدر اوباما کو افغانستان سے فوجوں کی واپسی کے بارے میں یہ فیصلہ کرنا پڑا کہ ابتدا میں تھوڑی فوجوں کا انخلا ہو، لیکن اگلے سال کے آخر تک تمام 33000فوجیوں کو نکالا جائے۔
اخبار کہتا ہے کہ افغانستان سے فوجوں کی واپسی میں کامیابی کا دارومدار محض فوجوں کی تعداد یا اُن کے واپسی کے ٹائم ٹیبل پر نہیں ہوگا۔ بلکہ، ایک ایسی صائب حکمتِ عملی پر جس کی مدد سے بغاوت کا کوئی سیاسی تصفیہ نکل آئے۔
اخبار کی نظر میں افغانستان میں گوارا حد تک سکیورٹی کے قیام کا کوئی دوسرا حقیقت پسندانہ راستہ نہیں ہے۔ لیکن، اِس قسم کے تصفیے کے لیے مسٹر اوباما کے اس امید افزا ٴتصور سے کچھ اور بھی درکار ہوگا جو اُنھوں نے افغان فوج اور بدعنوان پولیس کو سکیورٹی کے مؤثر محافظوں میں بدلنے میں باندھ رکھا ہے۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: