اخبار’کرسچن سائنس مانٹر‘ کہتا ہےکہ مشرقی افریقہ کے بیشترحصےمیں ایک کروڑ دس لاکھ سے زائد لوگوں کو غذا اور پانی کی شدید کمیابی کا سامنا ہے اور اِس علاقےکو60سال کی بدترین خشک سالی کا بھی سامنا ہے۔
صومالیہ کے تقریباً پانچ لاکھ افراد کینیا اورایتھیوپیا بھاگ گئے ہیں اورتقریباً اتنے ہی بھوکےلوگ صومالیہ کے دو قحط زدہ علاقوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔
چناچہ اخبار کہتا ہے کہ 1984ء کے بعد اقوام متحدہ نے پہلی مرتبہ دنیا کو قحط کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے حکومتوں اور افراد سے فوری امداد کی اپیل کی ہے۔یہ خصوصی اپیل صومالیہ کے اُن قحط زدہ علاقوں کے لیے کی گئی ہے جِن پر اسلامی عسکریت پسند تنظیم الشباب کا قبضہ ہے۔ اِس تنظیم کا القاعدہ دہشت گرد تنظیم سے قریبی رابطہ ہے۔
اقوامِ متحدہ کی اِس اپیل کے ساتھ ساتھ یہ اندیشہ بھی محسوس کیا جارہا ہے جو الشباب کے زیرِ قبضہ علاقوں میں خوراک اور پانی تقسیم کرنے کے بارے میں ہے۔
پچھلے سال اِس تنظیم نے اہل کاروں کو ڈرایا دھمکایا تھا۔ اُن سے امدادی سامان چھینا تھا یا ان کے مال پر ٹیکس لگایا تھا اور امریکہ کے ہاتھ اُن قواعد کی وجہ سے بندھے ہوئے ہیں جِن کے تحت امدادی سامان کی فراہمی ممنوع ہے۔
حالیہ دِنوں میں قحط کی سنگینی کی وجہ سے دونوں امریکہ اور الشباب نے اپنے مؤقف نرم کر دیے ہیں۔ اسلام پسندوں کو اندیشہ ہے کہ اُن کے زیرِ قبضہ علاقوں سے لوگ بھاگ رہے ہیں۔
اخبار’ سین ہوزے مرکری نیوز‘ نے ملک میں موجود جعلی کالجوں پر ایک اداریے میں کہا ہے کہ سلیکون ویلی سمیت سارے امریکہ میں ایسے جعلی کالج موجود ہیں جو ہزاروں غیرملکی نااہل طلبہ کو تعلیم سے آراستہ کرنے اور بعد میں روزگار فراہم کرنے کا وعدہ کرتے ہیں اور بات اُنھیں امریکی ویزا دلانے پر ختم ہوتی ہے اوربس۔
اخبار کہتا ہے کہ دس ہزار کالجوں پر جو وفاقی ضابطے نافذ ہیں اُن کی خلاف ورزی کرنا بڑا آسان ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ اُنھیں سخت بنایا جائے اور اُن پر سختی کے ساتھ عمل درآمد کرایا جائے۔
کئی سینیٹروں نے اس کی کڑی نگرانی کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ حال ہی میں پلیزنٹن میں ایک بوگس یونیورسٹی کو بند کردیا گیا، لیکن اِس قسم کی بہت سی دوسری درس گاہیں باہر کے ملکوں کے طلبہ کو اپنے گمراہ کُن اور جعلی دعووں سے بہلا پُھسلا کر پھانس لیتی ہیں۔
اِس قسم کی حرکتوں اور حکومت کی غفلت کے نتیجے میں اُن مستند پروگراموں پر سے عوام کا اعتبار ختم ہوجاتا ہے جو غیر معمولی صلاحیت کے تارکینِ وطن کو تعلیم اور روزگار کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ ایسے تارکینِ وطن اس قوم کے لیے انتہائی مفید ثابت ہوسکتے ہیں اور یہ ایک المیہ ہوگا اگر ایسے جعلی کالجوں کی موجودگی اِس میں رخنہ ڈالے۔
جاپان کے حالیہ زلزلے اور سونامی کے بعد ایک جاپانی بجلی گھر کی تباہی کے بعد یہاں امریکہ میں جوہری ضابطوں کو نافذ کرنے والے ادارے نے ایک ٹاسک فورس کے ذمے یہ کام سونپا ہے کہ وہ صورتِ حال کا مطالعہ کرکے طے کرے کہ امریکہ اِس سے کیا سبق حاصل کر سکتا ہے۔
اِس پر ایک اداریے میں’ لاس ویگس سن‘ اخبار کہتا ہے کہ اس ٹاسک فورس نے امریکہ کے 104جوہری بجلی گھروں کے ضابطوں میں تبدیلی کرنے کا مشورہ دیا ہے، تاکہ اِس قسم کی ناگہانی آفات کی صورت میں ان بجلی گھروں کو زیادہ محفوظ بنایا جاسکے۔
اخبار کہتا ہے کہ جوہری صنعت ہر چیز کے خلاف اپنے آپ کو محفوظ نہیں بنا سکتی لیکن جاپان کے حادثے سے ثابت ہوگیا ہے کہ امریکہ کے بجلی گھروں کو مزید محفوظ بنایا جاسکتا ہے، خاص طور پر اُن بجلی گھروں کو جو اب اپنی عمر کی چوتھی دہائی میں داخل ہوچکے ہیں۔ چناچہ اخبار نے ٹاسک فورس کی تجاویز پر سنجیدگی سے غور کرنے پر زور دیا ہے، تاکہ ضوابط کو بہتر بنا کر پبلک کی سلامتی کو یقینی بنایا جائے۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: