امریکہ اور مصر کے درمیان ان الزامات کی وجہ سے کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے کہ جمہوریت کے حامی گروپ مصر کے فوجی لیڈروں کے خلاف احتجاجوں کی حوصلہ افزائی کے لیے غیر ملکی پیسہ استعمال کر رہے ہیں۔ اس تنازعے میں اس وقت شدت پیدا ہو گئی جب مصری کابینہ کے ایک وزیر نے امریکہ پر الزام لگایا کہ وہ جان بوجھ کر افرا تفری پھیلا رہا ہے تا کہ ملک خوشحال نہ ہو سکے۔
امریکہ میں قائم فلاحی تنظیموں نے ان الزامات سے انکار کیا ہے۔ وہ اپنے اس موقف پر قائم ہیں کہ انھوں نے مصری قوانین کی پابندی کی ہے اور کسی مخصوص سیاسی پارٹی کی طرف داری کرنے سے پرہیز کیا ہے۔ دسمبر میں مصر کی سکیورٹی فورسز نے 17 فلاحی تنظیموں کے دفاتر پر چھاپے مارے اور ان کے کاغذات اور کمپیوٹرز پر قبضہ کر لیا۔ ان تنظیموں کو بیرونی ملکوں سے فنڈز ملتے ہیں۔ اس اقدام پر اوباما انتظامیہ نے سخت برہمی کا اظہار کیا ہے۔ اس نے دھمکی دی ہے کہ اگر یہ معاملہ طے نہ کیا گیا تو مصر کی ایک ارب ڈالر کی امداد ختم کر دی جائے گی۔
امریکی محکمۂ خارجہ کے انسانی حقوق کے اعلیٰ عہدے دار، مائیکل پوزنر کہتے ہیں کہ مصری حکام کو غیر سرکاری تنظیموں کے کام پر پابندی نہیں لگانی چاہیئے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’میں سمجھتا ہوں کہ چار امریکی تنظیموں کی صورت ِ حال، اس معاشرے میں غیر سرکاری تنظیموں کے رول کے بارے میں وسیع تر بحث کا حصہ ہے۔ کچھ غیر سرکاری تنظیمیں تو بین الاقوامی نوعیت کی ہیں جیسے وہ چار تنظیمیں، اور ان کے علاوہ مقامی مصری تنظیمیں ہیں۔ ان تمام گروپوں کے پاس یہ استعداد ہونی چاہیئے کہ وہ کسی پابندی کے بغیر، صرف اپنے ٹھوس کام کی بنیاد پر، کھلے عام، آزادی سے کام کر سکیں۔‘‘
فلاحی تنظیموں میں سے چار کا صدر دفتر واشنگٹن میں ہے اور انہیں امریکی حکومت سے کچھ فنڈز ملتے ہیں۔
جمہوریت کے حامی گروپس، جیسے نیشنل ڈیموکریٹک انسٹی ٹیوٹ اور انٹرنیشنل ریپبلیکن انسٹی ٹیوٹ مصر میں اور درجنوں دوسرے ملکوں میں کام کر رہے ہیں۔ یہ گروپ عموماً سیاسی پارٹیوں کو نشو و نما کے طریقوں کی تعلیم دیتےہیں، شہریوں کے گروپوں کو یہ سکھاتے ہیں کہ اپنے مقاصد کو کس طرح فروغ دیا جائے اور انتخابات کی نگرانی کرنے والوں کو تربیت دیتے ہیں۔
مشیل ڈن تحقیقی تنظیم اٹلانٹک کونسل میں مصر کے امور کی ماہر ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’یہ احساس بیدار کرنے کی ضرورت ہے کہ جمہوری عمل کے لیے ایک توانا اور آزاد معاشرہ بھی اتنا ہی اہم ہے جتنے آزادانہ انتخابات ضروری ہیں۔ اس قسم کی غیر سرکاری تنظیمیں مصر میں وہی کام کرنے کی کوشش کر رہی ہیں جو وہ ساری دنیا میں کرتی ہیں۔ امریکی یا مصری غیر سرکاری تنظیمیں جو کام کر رہی ہیں اس میں کوئی غیر معمولی یا مشکوک بات نہیں ہے۔ اس معاملے کے بارے میں امریکہ اور مصر کے درمیان نئی مفاہمت ہونی چاہئیے۔‘‘
گزشتہ 30 برسوں میں، امریکہ نے روس، زمبابوے، اور وینزویلا جیسے ملکوں میں جمہوریت کے حامی گروپوں کو فنڈز فراہم کیے ہیں۔ لیکن تجزیہ کار کہتے ہیں کہ بعض اوقات غیر سرکاری کارکنوں کو تنگ کیا گیا ہے، یا ا ن پر شک و شبہے کا اظہار کیا گیا ہے گویا دوسرے ملکوں میں ان کے کچھ مخصوص مقاصد ہیں۔
واشنگٹن میں قائم انسٹی ٹیوٹ فار نیئر ایسٹ پالیسی کے فیلو، ایرک ٹراگر کہتے ہیں کہ مصر کے سرکاری میڈیا کو ملک میں جمہوریت کے حامی گروپوں کے کام کے بارے میں غلط بیانات جاری کرنا بند کرنا چاہیئے۔ ان کے مطابق ’’مصر کے سرکاری میڈیا کا رویہ ان غیر سرکاری تنظیموں کے بارے میں بہت جارحانہ رہا ہے۔ اس نے انہیں ایسا ظاہر کیا ہے جیسے وہ امریکی پٹھو ہوں۔‘‘
قاہرہ اور واشنگٹن کے درمیان تعطل جاری ہے لیکن انسانی حقوق کے علمبردار کہتےہیں کہ انہیں اُمید ہے کہ مصر میں جمہوریت کے حامی گروپوں پر عائد کیے ہوئے مجرمانہ سرگرمیوں کے الزامات ختم کر دیے جائیں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ امدادی تنظیمیں صرف لوگوں کی تربیت کر رہی تھیں تاکہ وہ ان انتخابات میں حصہ لے سکیں جو فوجی حکمران منعقد کرنا چاہتے تھے۔