دولتِ اسلامیہ کے کیمیائی بم استعمال کرنے کی اطلاعات

فائل

امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری نے کہا ہے کہ ان الزامات کی تاحال تصدیق نہیں ہوئی ہے لیکن امریکہ "اس انتہائی سنگین معاملے" کا باریک بینی سے جائزہ لے رہا ہے۔

امریکی حکام کا کہنا ہے کہ وہ شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کی جانب سے عراقی فوجیوں پر کیمیائی ہتھیاروں کے مبینہ استعمال کی اطلاعات کی تحقیقات کر رہے ہیں۔

بعض عراقی اور مغربی ذرائع ابلاغ نے دعویٰ کیا ہے کہ دولتِ اسلامیہ کے جنگجووں نے گزشتہ ماہ بغداد کے شمال میں واقع بلاد کے علاقے میں عراقی پولیس پر حملوں کے دوران کلورین بم استعمال کیے تھے۔

رپورٹس کے مطابق دہشت گردوں کی جانب سے کلورین گیس سے بھرے گھریلو ساختہ بموں کے حملوں کے نتیجے میں پیلا دھواں بلند ہونے کے باعث عراقی حکام کو شبہ ہوا ہے کہ شدت پسند ان کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کر رہے ہیں۔

امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری نے جمعے کو اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ان الزامات کی تاحال تصدیق نہیں ہوئی ہے لیکن امریکہ "اس انتہائی سنگین معاملے" کا باریک بینی سے جائزہ لے رہا ہے۔

بیان میں انہوں نے کہا ہے کہ امریکی حکام ذرائع ابلاغ میں آنے والی ان اطلاعات کی مختلف ذرائع سے تفصیلات اکٹھی کر رہے ہیں۔

شام کے سرحدی قصبے کوبانی پر دولتِ اسلامیہ کے حملوں کے خلاف مزاحمت کے دوران زخمی ہونے والے کرد جنگجووں کے ایک معالج نے 'وائس آف امریکہ' کو بتایا ہے کہ انہوں نے بھی رواں ہفتے لگ بھگ 20 ایسے افراد کا علاج کیا ہے جن میں کلورین گیس سے متاثر ہونے کی علامات موجود تھیں۔

ڈاکٹر دارا محمود ان چار ڈاکٹروں میں سے ایک ہیں جو اب بھی کوبانی میں موجود ہیں اور وہاں لڑنے والے کرد جنگجووں کو طبی امداد فراہم کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر دارا نے 'وی او اے'کی کرد سروس کو ٹیلی فون انٹرویو میں بتایا ہے کہ منگل کو ان کے پاس جن زخمیوں کو لایا گیا تھا انہیں سانس لینے میں دشواری کا سامنا تھا، ان کی آنکھوں سے پانی رواں تھا اور وہ سر درد اور متلی کی شکایت کر رہے تھے۔

ڈاکٹر دارا کے بقول ان زخمیوں کے ہونٹ سوجے ہوئے تھے جب کہ ان کے جسم پر سرخ داغ تھے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں کسی کیمیائی ہتھیار کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

اس سے قبل عراقی ذرائع ابلاغ نے دعویٰ کیا تھا کہ دولتِ اسلامیہ کے جنگجووں نے ستمبر میں بغداد کے مغرب میں واقع سقلوایہ کے فوجی اڈے پر حملے کے دوران بھی کلورین بم استعمال کیے تھے۔

گزشتہ ماہ کیمیائی ہتھیاروں کے عدم استعمال کے عالمی ادارے نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ اسے رواں سال کے آغاز میں شام کے شمالی دیہات میں کلورین گیس کے متواتر اور منظم حملوں کے شواہد ملے تھے۔

تاہم عالمی ادارے نے کہا تھا کہ اسے حملوں میں ملوث افراد کے بارے میں واضح شواہد نہیں مل سکے ہیں۔ خیال رہے کہ شام کا یہ علاقہ اب دولتِ اسلامیہ کے قبضے میں ہے۔

رواں سال جولائی میں عراق میں اپنی پیش قدمی کےد وران دولتِ اسلامیہ کے جنگجووں نے مثانہ کے علاقے میں کیمیائی ہتھیاروں کے ایک گودام پر بھی قبضہ کرلیا تھا۔

تاہم اس وقت امریکی اورعراقی حکام نے کہا تھا کہ گودام میں موجود ہتھیار بہت پرانے تھے اور ان میں استعمال میں کیا جانے والا کیمیکل اپنا اثر کھو بیٹھا تھا۔

کلورین گیس انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہے لیکن گیس کی شکل میں اس کی تاثیر میں اضافہ ہوجاتا ہے اور یہ جان لیوا بھی ثابت ہوسکتی ہے۔

کلورین سے بننے والے کیمیکلز پانی کی صفائی، کھاد کی تیاری اور دیگر صنعتوں میں عام استعمال کیے جاتے ہیں اور اسی لیے یہ بآسانی دستیاب ہوتے ہیں۔