صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف امریکہ کی یکطرفہ فوجی کارروائی ایک غلطی ہوگی۔
منگل کی شب واشنگٹن میں رواں سال کی اپنی پہلی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر نے ایران، افغانستان، امیگریشن اور امریکہ کی معیشت سے متعلق سوالوں کے جواب بھی دیے۔
صدر اوباما نے شام میں مسٹر اسد کے مخالفین کے خلاف کارروائی کو روکنے کے لیے، جس میں 7,500 لوگ ہلاک ہو چکے ہیں، امریکی فوج بھیجنے کے مطالبات کی ایک بار پھر مخالفت کی۔
’’ہماری یکطرفہ فوجی کارروائی، جیسا کے بعض لوگ تجویز کر رہے ہیں، یا پھر یہ سوچنا کے اس مسئلے کا کوئی سادہ حل ہے، میرے خیال میں غلطی ہوگی۔‘‘
امریکی صدر نے کہا کہ صورت حال لیبیا کے مقابلے میں انتہائی پیچیدہ ہے، جہاں نیٹو افواج نے حکومت مخالف قوتوں پر معمر قذافی کی حکومت کے کریک ڈاؤن کے خلاف تحفظ فراہم کیا۔
صدر اسد کو مستعفی ہونے پر مجبور کرنے کے لیے امریکی صدر نے اقتصادی تعزیرات اور سفارتی دباؤ کا استعمال کیا ہے۔
صدر اوباما نے ایران کی حکومت کو جوہری ہتھیاروں کے حصول کی کوششیں ترک کرنے کے لیے تہران پرتعزیرات کے ذریعے دباؤ بڑھانے کی اپنی پالیسی کا دفاع کیا۔
’’ایران پر ان تعزیرات کے نمایاں اثرات ہو رہے ہیں۔ دنیا اس سلسلے میں متحد ہے جب کہ ایران سیاسی طور پر تنہا ہو گیا ہے۔‘‘
امریکی صدر نے کہا کہ ایران کے ساتھ تنازع کو سفارتی طور پر حل کرنے کا موقع اب بھی موجود ہے۔
تہران کا موقف ہے کہ اُس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے۔
صدر اوباما نے ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے سیاسی مخالفین پر’’طبل جنگ‘‘ بجانے کا الزام لگایا کیونکہ وہ سفارتی ذرائع سے مسائل کو حل کرنے کی ان کی پالیسی پر مسلسل تنقید کر رہے ہیں۔
’’ان لوگوں پر زیادہ ذمہ داریاں نہیں ہیں۔ وہ کمانڈر اِن چیف نہیں ہیں۔ جب میں ان لوگوں کے جنگ کے بارے میں بے تکلف بیانات کو سنتا ہوں تو مجھے جنگ کے لیے ادا کی جانے والی قیمت یاد آتی ہے۔‘‘
صدر نے کہا کہ ایران کو مذاکرات کی طرف لوٹنے اور یہ ثابت کرنے کی ضرورت ہے کہ جوہری منصوبے کے حوالے سے اُس کے ارادے پرامن ہیں۔
افغانستان سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وہاں پر 2014ء تک سلامتی کی ذمہ داریوں کی نیٹو سے افغانوں کو منتقلی کی تیاری جاری ہیں۔ صدر اوباما نے کہا کہ انھیں حادثاتی طور پر امریکی اور اتحادی افواج کے ہاتھوں قرآن کو نذر آتش کرنے پر تشویش ہے لیکن اس کے ردعمل میں امریکی افواج کے خلاف تشدد کو اُنھوں نے ناقابل قبول قرار دیا۔
’’میرے خیال میں یہ اُس ماحول میں درپیش چیلنجوں کی نشاندہی کرتا ہے اور یہ اس بات کی بھی نشاندہی ہے کہ منتقلی کا وقت آگیا ہے۔‘‘
امیگریشن سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ اگر وہ دوبارہ امریکہ کے صدر منتخب ہوئے تو وہ ملک کے امیگریشن کے نظام میں اصلاحات کا قانون تجویز کریں گے۔