امریکہ کے ایک تحقیقی ادارے کا کہنا ہے کہ شدت پسندی کے خاتمے کے لئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نسبت مساجد زیادہ اہم کردار ادا کر سکتی ہیں ۔
ان دنوں امریکی ریاست نارتھ کیرولائنا کے شہر رالی کے تین نوجوانوں پر دہشت گردی میں مدد دینے کے الزام میں ایک مقدمہ زیر سماعت ہے ۔
مصری نژاد امام سامع اصل کہتے ہیں کہ رالی شہر کا اسلامک سینٹر امن کی جگہ ہے ، جہاں انتہا پسند سوچ کا مقابلہ مسلمانوں کو اعتدال پسندی کی جانب راغب کرکے کیا جاتا ہے ۔
وہ کہتے ہیں کہ یہاں صرف تعلیم نہیں دی جاتی ، بلکہ یہاں کھیل اور سماجی سرگرمیاں بھی ہوتی ہیں ، کبھی کوئی پکنک یا نوجوانوں کے لئے کیمپ وغیرہ، تاکہ نوجوان خود کو سب سے الگ محسوس نہ کریں ۔
یہ وہی اسلامک سینٹر ہے جس میں دہشت گردی کا مبینہ منصوبہ بندی کے الزام میں زیر حراست تین نوجوان باقاعدگی سے آتے تھے ۔ اس منصوبے کے مبینہ سرغنہ ڈینیئل پیٹرک بوئڈ نے اپنا جرم قبول کر لیا ہے ۔ وکلاء کا کہنا ہے کہ اس نے رالی شہر کے اسلامک سینٹر آنا اس لئے چھوڑ دیا تھا کیونکہ اسے یہاں کی تعلیم غیر ضروری اعتدال پسند لگتی تھی ۔
دہشت گردی کے الزام میں پچھلے دس سال کے دوران ہونےو الی گرفتاریوں سے امریکہ میں اسلام ، مسلمانوں اور مساجد میں دی جانے والی تعلیم کے بارے میں تجسس میں زبردست اضافہ ہوا ہے ۔
امام سامع اصل کہتے ہیں کہ اسلام خیرات کرنے، دوسرے عقائد کے ماننے والوں سے رواداری اورجس ملک میں آپ رہتے ہوں ، اس کے قانون کے احترام کا سبق دیتا ہے ۔ ٹرائی اینگل سینٹر آن ٹیررازم اینڈ ہوم لینڈ سیکیورٹی کے تحقیق کاروں کے مطابق رالی شہر کی مساجد یہی پیغام عام کرنے کی کوشش کر رہی ہیں ۔
اس تحقیق میں شرکت کرنے والے ڈیوک یونیورسٹی کے پروفیسر ڈیوڈ شینزر کے مطابق مضبوط سماجی تعلقات پر مبنی کمیونٹیز دہشت گردی روکنے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بھی بڑھ کر کردار ادا کر سکتی ہیں ۔
ڈیوڈ شینزر کہتے ہیں کہ دہشت گردی کے الزام میں ہونےو الی اب تک کی تمام گرفتاریاں عموما مسلمان کمیونٹی کے تعاون سے ہی عمل میں آئی ہیں ۔ جو ان کے خیال میں اس بات کا ثبوت ہیں کہ رالی کے امام سامع اصل اور ان جیسے دیگر مسلمانوں کی جانب سے دہشت گردی کی مذمت خلوص اور نیک نیتی پر مبنی ہے ۔