ایک حالیہ تحقیق کے مطابق 11 ستمبر 2001ء کے دہشت گرد حملوں کے بعد امریکہ میں مساجد کی تعداد میں نمایاں طور پر اضافہ ہوا ہے۔
امریکی مسلمانوں کی تنظیموں اور 'ہارٹ فورڈ انسٹی ٹیوٹ آف ریلیجن ریسرچ' کی جانب سے کی گئی مشترکہ تحقیق میں کہا گیا ہے کہ مساجد پر انتہا پسندی پھیلانے کے الزامات اور ان کی تعمیر کے خلاف ہونے والے احتجاجی مظاہروں کے باوجود امریکہ میں مساجد کی تعداد بڑھ رہی ہے۔
تحقیق کے مطابق امریکہ میں اس وقت 2100 سے زائد مساجد موجود ہیں جو 11 ستمبر کے حملوں سے ایک برس قبل تک امریکہ میں موجود مساجد سے 74 فی صد زیادہ ہیں۔
تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی مسلمانوں میں اپنے مذہبی اجتماعات شہروں کے نواحی علاقوں میں منعقد کرنے اور امریکی معاشرے میں گھلنے ملنے کے رجحان میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔
پروفیسر احسان باگبے یونی ورسٹی آف کینٹکی میں تعلیماتِ اسلامیہ کے پروفیسر اور تحقیق کے ایک شریک مصنف ہیں۔ مساجد کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجوہات بیان کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ امریکہ کی مسلمان آبادی میں اضافہ ہورہا ہے، مسلمان مستحکم اور سرگرم ہورہے ہیں اور امریکی معاشرے کا حصہ بنتے جارہے ہیں۔
تحقیق کے مطابق مساجد کی تعداد کے اعتبار سے نیویارک امریکہ بھر میں سرِ فہرست ہے جہاں 257 مساجد ہیں۔ کیلی فورنیا 246 مساجد کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔
2000ءمیں کی جانے والی مسجد شماری کے مطابق امریکہ کی بیشتر مساجد ملک کے شمال مشرقی حصوں میں تھیں لیکن 10 برس بعد کی جانے والی اس حالیہ تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب جنوبی ریاستیں مساجد کی تعداد کے اعتبار سےسرِ فہرست ہیں۔
احسان باگبے کا کہنا ہے کہ مشرقی ریاست کینٹکی کے چھوٹے چھوٹے شہروں تک میں مساجد تعمیر ہوچکی ہیں۔ان کے بقول اگر کینٹکی کے پہاڑوں میں مساجد تعمیر ہوسکتی ہے تو پھر آپ کو امریکہ کے دوسرے کسی مقام پر مسجد دیکھ کر حیرت نہیں ہونی چاہیے۔
پروفیسر باگبےکہتے ہیں کہ مسلمانوں کی امریکہ کو نقل مکانی اور قدرتی طور پر بلند شرحِ پیدائش کے باعث بھی مساجد کی تعمیر میں اضافہ ہوا ہے جب کہ امریکی مسلمانوں کے بڑھتے ہوئے معاشی وسائل نے بھی اس اضافے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
ابھی دو برس قبل ہی نیویارک میں 11 ستمبر کے حملوں کے مقام کے نزدیک ایک مسجد کی مجوزہ تعمیر کے منصوبے نے امریکہ میں قومی سطح کے تنازع کا روپ دھار لیا تھا اور ان الزامات کی بازگشت سنی گئی تھی کہ مساجد شدت پسندوں کو جنم دے رہی ہیں۔
لیکن تحقیق کے لیے جن مساجد کے خطیبوں سے رائے مانگی گئی ان میں سے 56 فی صد کا کہنا ہے کہ وہ اپنی تقاریر میں اسلام کے ان پہلووں کو اجاگر کرتے ہیں جن کے ذریعے جدید زندگی اور قرآن و حدیث میں مطابقت پیدا کی جاسکے۔
پروفیسر باگبے کا کہنا ہے کہ 2000ء میں کی جانے والی تحقیق میں مساجد کے جن مبلغین سے آراء مانگی گئی تھیں ان میں سے نصف نے اس یقین کا اظہار کیا تھا کہ " اسلام کے بارے میں امریکی معاشرے کا رویہ معاندانہ ہے"۔
ان کے بقول اب صرف 25 فی صد مساجد کے سربراہان اس رائے کے حامل ہیں کہ امریکی معاشرے کا اسلام کے ساتھ رویہ دوستانہ نہیں۔
پروفیسر باگبے مسلمانوں اور امریکی معاشرے کے اس بہتر ہوتے باہمی تعلق کے تعلق کے بارے میں کہتے ہیں کہ11/9 کے بعد امریکی معاشرے کی نظریں مساجد پر مرکوز ہوگئیں۔ اس غیر معمولی توجہ کا مرکز بن جانے کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کا اپنے پڑوسیوں اور مقامی آبادیوں میں موجود دیگر مذہبی گروہوں اور ا ن کی عبادت گاہوں، بشمول گرجا گھروں اور سیناگاگ، سے روابط میں اضافہ ہوا۔ اس میل جول کےنتیجے میں مختلف مذاہب کے ماننے والوں کو ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع ملا اور ہم آہنگی بڑھی۔
حالیہ تحقیق کے مطابق لگ بھگ 26 لاکھ امریکی مسلمان عید کی نماز مساجد میں ادا کرتے ہیں جو اسلام کا سب سے بڑا تہوار ہے۔
اس تعدادکو دیکھتے ہوئے بعض مسلم راہنماؤں کا خیال ہے کہ امریکہ کی مسلمان آبادی 70 لاکھ کے لگ بھگ ہے اور یہ ان اندازوں سے کہیں زیادہ ہے جو امریکی مسلمانوں کی تعداد کے بارے میں عموماً بیان کیے جاتے ہیں۔
تحقیق کے منتظم ادارے 'ہارٹ فورڈ انسٹی ٹیوٹ' سے وابستہ ڈیوڈ روزن کہتے ہیں اسلام ممکنہ طور پر امریکہ میں سب سے تیزی سے پھیلنے والا مذہب ہے لیکن، ان کے بقول، امریکی معاشرے میں اس کا اثر اب بھی محدود ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ انتہائی تیزی سے پھیلنے کے باوجود اسلام اب بھی امریکی آبادی کے اندازاً صرف دو، تین یا چار فی صد افرادکا مذہب ہے۔
روزن نے عیسائی آبادیوں میں سرگرم مذہبی اجتماعات کے معدوم ہوتے رجحان پر بھی تحقیق کی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ امریکہ میں مساجد کی بڑھتی ہوئی تعداد عیسائیوں کے لیے باعثِ تشویش نہیں ہونی چاہیے۔
ان کے بقول عیسائیوں کے لیے اصل پریشانی وہ دہریے ہونے چائیں جو امریکی آبادی کا 15 فی صد پر مشتمل ہیں۔
روزن کہتے ہیں کہ امریکہ میں مذہبی رجحانات کے جائزوں کے مطابق مذہبی گروہوں کے مقابلے میں ان افراد کی تعداد سب سے زیادہ تیزی سے بڑھ رہی ہے جو کسی مذہب پر اعتقاد نہیں رکھتے۔