امریکی مذہبی آزادی کے ادارے کا بھارت کو 'خاص تشویش' کا ملک نامزد کرنے کا مطالبہ

فائل فوٹو: ٹورنٹو میں بھارت کے قونصل خانے کے باہر احتجاج

امریکہ کے مذہبی آزادی کے نگراں ادارے نے ایک بار پھر صدر جو بائیڈن کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ امریکی مذہبی آزادی قانون کے تحت بھارت کو 'خاص تشویش کا حامل ملک' قرار دے۔

یو ایس کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (یو ایس سی آئی آر ایف) کے نام سے کام کرنے والے آزاد وفاقی حکومت کے کمیشن نے کہا کہ "بھارتی حکومت کی جانب سے بیرونِ ملک سرگرم کارکنوں، صحافیوں اور وکلاء کو خاموش کرنے کی حالیہ کوششیں مذہبی آزادی کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔"

ایک بیان میں ادارے نے کہا، "یو ایس سی آئی آر ایف امریکی محکمۂ خارجہ سے درخواست کرتا ہے کہ منظم، جاری، اور مذہب یا عقیدے کی آزادی کی سنگین خلاف ورزیوں کی وجہ سے بھارت کو ایک خاص تشویش کا ملک قرار دیا جائے۔"

دنیا بھر میں مذہبی آزادی پر نظر رکھنے والے ادارے کے کمشنر اسٹیفن شنیک نے کہا کینیڈا میں سکھ کارکن ہردیپ سنگھ نجار کے قتل میں بھارتی حکومت کے مبینہ کردار اور امریکہ میں ایک سکھ کارکن گروپتونت سنگھ پنوں کو قتل کرنے کی سازش 'شدید پریشان کن' ہے۔

SEE ALSO: حجاب کا تنازع: بیرون ملک مقیم بھارتی کیا سوچتے ہیں؟

خیال رہے کہ نیویارک شہر مین ہٹن میں وفاقی استغاثہ نے رواں ماہ کہا تھا کہ ایک بھارتی شہری نے ایک نامعلوم بھارتی سرکاری ملازم کے ساتھ مل کر امریکی شہری گروپتونت سنگھ کو قتل کرنے کی سازش پر کام کیا تھا۔

نیویارک کے رہائشی سکھ کارکن گروپتونت سنگھ پنوں شمالی بھارت میں ایک خودمختار سکھ ریاست کے قیام کی وکالت کرتے ہیں۔

نئی دہلی نے اس سازش میں ملوث ہونے سے انکار کیا ہے۔

خبررساں ادارے 'رائٹرز' نے ایک رپورٹ میں کہا کہ یہ مسئلہ بائیڈن انتظامیہ اور بھارت دونوں کے لیے انتہائی نازک ہے کیوں کہ امریکہ اور بھارت جمہوریتوں کے لیے خطرہ سمجھے جانے والے ملک چین کی مسابقت میں قریبی تعلقات استوار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

SEE ALSO: امریکہ: سکھ رہنما کے قتل کی ناکام سازش ’انتہائی سنجیدہ معاملہ‘ قرار

امریکی مذہبی آزادی کے ادارے نے کہا کہ اس نے 2020 کے بعد سے ہر سال محکمۂ خارجہ سے بھارت کو 'ایک خاص تشویش کا حامل' ملک قرار د ینے کی سفارش کی ہے۔

سال 1998 کے امریکی مذہبی آزادی قانون کے تحت کسی ملک کو 'خاص تشویش کا حامل' قرار دینا امریکی حکومت کو متعدد پالیسی ردعمل اقدامات کی اجازت دیتا ہے جن میں پابندیاں یا چھوٹ دونوں شامل ہیں۔ تاہم اس قانون کے تحت تجویز کیے گئے اقدامات از خودعمل میں نہیں آتے۔

SEE ALSO: سکھ رہنما کے قتل کا منصوبہ؛ امریکہ کے بھارت کے ساتھ تعلقات پر کیوں فرق نہیں پڑے گا؟

یو ایس سی آئی آر ایف کے کمشنر ڈیوڈ کری نے نوٹ کیا کہ بھارت کی جانب سے 'اندورون ملک اقلیتوں کے خلاف ہونے والے جبر' کی بھارت سے تعلق رکھنے والے بیرون ممالک مقیم اقلیتوں کو نشانہ بنانے کی توسیع "خاص طور پر خطرناک ہے اور اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔"

امریکی مذہبی کمیشن کی تازہ ترین تجویز پر ابھی تک بھارت سے کوئی سرکاری ردِ عمل سامنے نہیں آیا۔

یاد رہے کہ ہندو اکثریت کے ملک بھارت کی وزارتِ خارجہ نے کمیشن کی اس طرح کی سال 2020 کی سفارش کو مسترد کر دیا تھا۔ یہ پہلی بار تھا کہ کمیشن نے امریکہ کو بھارت کے لیے 'خاص تشویش کا حامل' ملک قرار دینے کی تجویز دی تھی۔

بھارت کی وزارتِ خارجہ نے کمیشن کے 'متعصبانہ تبصروں' پر تنقید کی تھی۔

اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے لی گئی ہیں۔