تازہ ترین گیلپ پول سے ظاہر ہوتا ہے کہ صدارت کے لیے ریپبلیکن اُمیدواروں کی نامزدگی کی دوڑ میں، رِک پیری نے ریاست میساچوسٹس کے سابق گورنر مٹ رومنے کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔ اس پول میں پیری کی مقبولیت کی شرح 29 فیصد تھی جب کہ مٹ رومنے کی مقبولیت 17 فیصد تھی۔ ریاست ٹیکساس کے کانگریس مین ران پال 13 فیصد کے ساتھ تیسرے نمبر پر تھے جب کہ منی سوٹا کی خاتون رکن ِ کانگریس، 10 فیصد کے ساتھ چوتھے نمبر پر رہیں۔
رائے عامہ کے ایک اور سروے،پبلک پالیسی پولنگ کے مطابق، پیری کو بقیہ امید واروں پر 13 پوائنٹس کی سبقت حاصل تھی۔ پیری کی مقبولیت میں یہ اچانک اضافہ ان کے کئی ریاستوں کے دوروں کے بعد ہوا جن میں اگلے سال کسی اُمید وار کی نامزدگی کے عمل کے لیے ابتدائی مقابلے ہوتے ہیں۔ ان کی انتخابی مہم کا ایک بڑا موضوع ملک کی کمزور معیشت تھا۔ انھوں نے کہا کہ ’’ہر چھ امریکیوں میں سے جو کام کرنے کے اہل ہیں، ایک کو کوئی کُل وقت کام نہیں ملتا۔ اسے آپ اقتصادی بحالی نہیں کہہ سکتے۔ یہ اقتصادی تباہی ہے۔‘‘
رائے عامہ کے جائزوں میں ، مہینوں تک مٹ رومنے ریپبلیکن اُمیدواروں میں سب سے آگے تھے، اور وہ اب بھی اپنی انتخابی مہم میں اپنے کاروباری پس منظر پر زور دیتے رہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ہمارے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ہماری انتظامیہ ایسی ہو جس کی قیادت ایسے شخص کے پاس ہو جو جانتا ہو کہ کاروبار کس طرح چلایا جاتا ہے، اور ٹیکسوں، ضابطوں اور تجارت کے نقطۂ نظر سے کس طرح فیصلے کیے جائیں جن سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں۔‘‘
امریکی صدارت کے تاریخ داں ایلن لچمین کہتے ہیں کہ گیلپ پول میں پیری کے اول پوزیشن حاصل کرنے پر حیرت نہیں ہونی چاہیئے۔ ان کے مطابق’’میرے خیال میں، بالآخر یہ مقابلہ دو افراد ریاست ٹیکساس کے گورنر رِک پیری اور ریاست میساچوسٹس کے سابق گورنر مٹ رومنے ۔کے درمیان رہ جائے گا۔‘‘
لچمین کہتے ہیں کہ پول کے نتیجوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ پیری ریپبلیکن پارٹی کے اندر اقتصادی اور سماجی قدامت پسندوں ، دونوں میں مقبول ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’’ریپبلیکن پرائمری انتخاب میں ووٹ ڈالنے والے بہت قدامت پسند ہیں، اور رومنے کے مقابلے میں پیری زیادہ قدامت پسند ہیں۔ پیری کی انتخابی مہم کا اسٹائل بہتر ہے اور اس کے علاوہ، رومنے کا مورمن مذہب ، ریپبلیکنز ووٹروں کے ایوانجیلیکل پروٹیسٹینٹ حلقے میں ایک مسئلہ بنا رہا ہے۔ ریپبلیکن پرائمری میں جو لوگ ووٹ ڈالتے ہیں، یہ لوگ ان میں خاصی تعداد میں ہیں۔ لہٰذا میرے خیال میں، رومنے کے لیے یہ تمام چیزیں باعثِ تشویش ہونی چاہئیں۔‘‘
لیکن بعض دوسرے ریپبلیکن اُمید وار پیری کے سایے سے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ریاست اوٹاہ کے سابق گورنر جان ہنٹسمین اس مقابلے میں خود کو ایک اعتدال پسند اُمید وار کی حیثیت سے پیش کر رہے ہیں اور انھوں نے عالمی حدت اور زندگی کے ارتقا کے نظریے کے بارے میں پیری کے خیالات پر تنقید کی ہے۔ گذشتہ ہفتے انھوں نے اے بی سی ٹیلیویژن پر کہا کہ ’’اس وقت یہ ملک کوئی اعتدال پسند اور میانہ روی کا موقف اختیار کرنے کے لیے تڑپ رہا ہے۔ یہ درمیانی راہ اختیار کرنے والوں کا ملک ہے۔ میں دائیں بازو کا میانہ روی کا رویہ رکھنے والا اُمید وار ہوں۔‘‘
تقریباً ایک درجن اُمید وار ریپبلیکن پارٹی کی طرف سے صدارت کی نامزدگی حاصل کرنے کی دوڑ میں شامل ہیں، اگرچہ فی الحال بیشتر توجہ پیری، رومنے اور بیکمین کو مل رہی ہے۔ الاسکا کی سابق گورنر سارہ پیلن نے اب تک یہ طے نہیں کیا ہے کہ وہ صدارتی انتخاب میں حصہ لیں گی یا نہیں، لیکن توقع ہے کہ وہ اپنے فیصلے کا اعلان اگلے مہینے کر دیں گی۔