سیاسی ماہرین کہتے ہیں کہ فی الحال صدارت کے ریپبلیکن امید واروں کے ہجوم میں تین افراد دوسروں سے نمایاں ہیں۔ یہ تین ہیں ریاست میساچوسٹس کے سابق گورنر مَٹ رومنی، ریاست ٹیکسس کے گورنر رک پیری اور امریکی کانگریس میں ریاست منی سوٹا کی خاتون رکن میچل باکمان ۔
ریاست آیو وا کے ریپبلیکن اسٹرا پول میں باکمان کی فتح کے بعد ان کی پوزیشن مضبوط ہو گئی۔ اسٹرا پول ایک آزمائشی ووٹ ہوتا ہے جس سے اگلے سال کے شروع میں، ریاست آیووا کے اہم صدارتی کاکس میں ، امیدواروں کی پوزیشن کا اندازہ ہو جاتا ہے ۔ اپنی فتح کے بعد باکمان نے کہا’’میری حکمت عملی میں اوباما کو بنیادی اہمیت حاصل ہے ۔ میرا ارادہ ہے کہ ریپبلیکن پارٹی کی نامزدگی حاصل کروں، اوباما کا مقابلہ کروں، اور 2012 میں انہیں شکست دوں۔‘‘
لیکن باکمان کی فتح کسی حد تک اس مقابلے میں ریاست ٹیکسس کے گورنر رک پیری کے داخلے سے ماند پڑ گئی۔ مسٹر پیری نے کہا’’میں امریکہ میں یقین رکھتا ہوں۔ میں امریکہ کے مقصد اور اس کے وعدے پر یقین رکھتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ امریکہ کے بہترین دِن ابھی آنے ہیں۔ اور آپ کی مد د اور خدا کی مہربانی سے، ہم امریکہ میں ایک بار پھر سب کو روزگار دلا دیں گے۔‘‘
باکمان کی طرح پیری بھی سماجی قدامت پسندوں اور ٹی پارٹی کے سرگرم عناصر میں مقبول ہیں جو وفاقی حکومت کے سائز کو کم کرنا چاہتے ہیں۔
پیری کو یہ امید بھی ہے کہ انہیں اقتصادی قدامت پسندوں کی حمایت بھی حاصل ہو جائے گی جو اب تک ریاست میساچوسٹس کے سابق گورنر مٹ رومنی کے حامی رہے ہیں۔ نامزدگی کے ریپبلیکن امیدواروں میں اب تک رومنی کو اولیت حاصل ہے۔ انھوں نے اپنی تنقید صدر براک اوباما پر مرکوز رکھی ہے ۔’’میں نے آج صبح دیکھا کہ صدر کی مقبولیت کی شرح جتنی کم اب ہے اس سے پہلے کبھی نہیں تھی۔اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وہ انتخابی مہم نہیں چلا رہے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ وہ قیادت نہیں کر رہے ہیں۔ امریکی عوام کو ایسے صدر کی ضرورت ہے جو اپنی قیادت سے معیشت کو ایک بار پھر توانا کر دے۔‘‘
ماہرین کہتے ہیں کہ اس مقابلے میں پیری کے داخلے سے نامزدگی کی جنگ میں ہلچل مچ گئی ہے ۔ اے بی سی نیوز کے میتھیو ڈواِڈ نے سابق صدر جارج ڈبلو بش کے لیے کام کیا ہے ۔ انھوں نے پیش گوئی کی ہے کہ رک پیری بڑے مضبوط امید وار ثابت ہوں گے جنہیں شکست دینا آسان نہیں ہو گا۔ ’’یہ شخص بڑی زبردست انتخابی مہم چلاتا ہے۔ میں نے جارج بش کے لیے کام کیا ہے اور میں ریک پیری کو بھی جانتا ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ جارج بش کے مقابلے میں بہتر انتخابی مہم چلا سکتے ہیں۔‘‘
رائے عامہ کے جائزوں میں رومنی کو دوسرے ریپبلیکن امیدواروں پر معمولی سی سبقت حاصل ہے لیکن بہت سے قدامت پسندوں کو ڈیموکریٹک رجحانات رکھنے والی ریاست میساچوسٹس کے گورنر کی حیثیت سے ان ریکارڈ کے بارے میں شبہات ہیں۔ یہ لوگ کسی زیادہ قدامت پسند امید وار کی تلاش میں ہیں۔
ریڈ ولسن سیاسی نیوزلیٹر ہاٹ لائن کے ایڈیٹر ہیں۔ حال ہی میں انھوں نے CSPAN ٹیلیویژن نیٹ ورک پر کہا’’یہ لوگ کسی دوسرے امیدوار کی تلاش میں ہیں، جو مٹ رومنی کے مقابلے میں کھڑا ہو سکے۔ انہیں رک پیری سے بہتر امیدوار نہیں مل سکتا۔ امریکہ میں ایوانجیلیکل ووٹروں کے ساتھ ان کا تعلق بہت اچھا ہے اور وہ واحد ریپبلیکن ہیں جنھوں نے پوری ریاست میں ٹی پارٹی جیسے نظریات کی بنیاد پر پرائمری انتخاب جیتا ہے ۔‘‘
پیری قدامت پسندوں میں مقبول ہیں، لیکن بعض ریپبلیکنز سوچ رہے ہیں کہ کیا وہ ان اعتدال پسند ووٹروں کے لیے قابلِ قبول ہو سکتے ہیں جن کی اکثر صدارتی انتخابات جیتنے کے لیے ضرورت پڑتی ہے ۔ آنے والے ہفتوں میں پیرے کی آزمائش ہو جائے گی، کیوں صرف ستمبر میں ہی، تین ریپبلیکن صدارتی مباحثے ہونے والے ہیں۔