امریکہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ فلسطینیوں کی امداد دوبارہ شروع کرتے ہوئے انسانی ہمدردی، معاشی اور ترقیاتی امداد کے لیے ساڑھے 23 کروڑ ڈالر کی رقم فراہم کرے گا۔ اس اعلان سے امریکہ کی نئی انتظامیہ نے، سابق امریکی انتظامیہ کے دور میں فلسطین کی امداد بند کرنے کے فیصلے کو منسوخ کر دیا گیا ہے۔
امریکی امداد کی زیادہ تر رقم، فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے یونائیٹڈ نیشنز ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی کے ذریعے فراہم کی جائے گی۔
امریکہ کے وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے امداد بحال کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا کہ فلسطینی عوام کے لئے امریکہ کی جانب سے فراہم کی جانے والی یہ غیر ملکی امداد، اہم امریکی مفادات اور اقدار کو ظاہر کرتی ہے۔
ان کے کہنا تھا کہ اس امداد کے ذریعے انتہائی ضرورت مندوں کو ریلیف ملے گا، معاشی ترقی کی حوصلہ افزائی ہوگی، اسرائیل اور فلسطین کے مابین اعتماد پیدا ہوگا اور خطے میں سلامتی کی صورت حال میں بہتری پیدا ہوگی۔
2018 میں ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے اور وہاں امریکی سفارت خانہ کھولنے کے بعد فلسطینی اتھارٹی اور امریکہ کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوگئی تھی۔ جس کے بعد امریکی انتظامیہ نے امریکہ کی جانب سے فلسطینی اتھارٹی کو دی جانے والی امداد میں 20 کروڑ ڈالر کی کمی کر دی تھی۔
اسی برس امریکہ کی جانب سے اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی (UNWRA) کو دی جانے والی امداد میں بھی 30 کروڑ کی کمی کی گئی تھی۔
یاد رہے کہ UNWRA غزہ کی پٹی، ویسٹ بینک، اردن، لبنان اور شام میں مقیم 57 لاکھ سے زائد فلسطینی پناہ گزینوں کو امداد فراہم کرتی ہے۔ اس امداد میں تعلیم اور صحت سمیت ضروری خدمات شامل ہیں۔ امریکہ کی جانب سے امداد کی کمی کے بعد ادارے کو فنڈز کی شدید کمی کا سامنا کرنا پڑا۔
ایجنسی کے ڈائریکٹر گوئین لوئیس کا کہنا تھا کہ ویسٹ بینک میں وبا کی وجہ سے معیشت کو شدید نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ فی گھرانہ آمدن میں 40 فیصد کمی ہوئی ہے اور غزہ میں بے روزگاری کی شرح 49 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔
فروری میں فلسطینی اتھارٹی نے ویکسی نیشن کی مہم شروع کی تھی۔ اسرائیل نے رواں برس مارچ میں اعلان کیا تھا کہ وہ ان 1 لاکھ سے زائد فلسطینوں کو ویکسین کی خوراکیں دے گا جنہیں اسرائیل میں کام کرنے کا پرمٹ حاصل ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے کوواکس پروگرام کے تحت بھی فلسطینی اتھارٹی کو 2 لاکھ ویکسین کی خوراکوں کی امداد فراہم کی گئی ہے۔
اقوام متحدہ کے امدادی ادارے کے کمشنر جنرل فلپ لازیرینی نے بدھ کے روز اقوام متحدہ کی ایک میٹنگ کے دوران اعلان کیا ہے کہ واشنگٹن کی جانب سے دوبارہ سے امداد شروع کرنے کے باوجود ادارے کو 20 کروڑ ڈالر کے فنڈز کی کمی کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہماری سب سے بڑی ترجیح فلسطینی پناہ گزینوں کے لئے ادارے کی خدمات کو جاری رکھنا ہے۔‘‘
انہوں نے امداد دوبارہ شروع کرنے کے واشنگٹن کے فیصلے کا خیر مقدم کیا۔
یاد رہے کہ امریکہ اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے ریلیف اینڈ ورکس کی 1949 میں ابتدا سے لے کر 2018 میں ٹرمپ انتظامیہ کے فیصلے تک ادارے کو سب سے زیادہ امداد فراہم کرنے والا ملک تھا۔
اس ادارے کے تحت خطے میں سات سو سکول چلائے جاتے ہیں، جن میں پانچ لاکھ فلسطینی بچے پڑھ رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے کے مطابق اس کے سکولوں اور امدادی اداروں کے آپریشنز میں کسی امتیازی یا نفرت اور تشدد بھڑکانے والے رویوں کو برداشت نہیں کیا جاتا۔