صدر اوباما اور صدر پیوٹن نے اِس معاہدے کو ’اپنے ملکوں کی سلامتی کو محفوظ بنانے کے لیے لازمی‘ قرار دیا ہے
واشنگٹن —
امریکہ اور روس نے سائبر سکیورٹی کے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں، جِس کی بدولت دونوں ممالک اکیسویں صدی کی ’ہاٹ لائن‘ کی سہولت استعمال کر سکیں گے۔
وائٹ ہاؤس کی طرف سے جاری کردہ ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی صدر براک اوباما اور روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے اس معاہدے کو ’اپنے ملکوں کی سلامتی کو محفوظ بنانے کے لیے لازمی‘ قرار دیا ہے۔
سمجھوتے پر شمالی آئرلینڈ میںٕ منعقد ہونے والے ’جی ایٹ‘ سربراہ اجلاس کے دوران پیر کے روز دستخط کیے گئے، جس کا مقصد سائبر اسپیس کے کسی تنازع کے خطرے کو کم کرنے کے لیے، ممکنہ واقعات کےبارے میں براہِ راست، ’ریئل ٹائم‘ رابطہ قائم کرنا ہے۔
دونوں ممالک اس سہولت کو استعمال کریں گے، جسے سرد جنگ کے زمانے میں قائم کیا گیا تھا، تاکہ ایک دوسرے کو سائبر مشقوں کے بارے میں اطلاع دی جاسکے، سائبر واقعات کے بارے میں پوچھا جاسکے، اور مشتبہ کارروائی کی صورت میں اپنی تشویش کا اظہار کرنا ممکن ہو۔
معاہدے میں سیاسی، فوجی اور دہشت گرد خطرات کے ساتھ ساتھ جرائم سے متعلق کارروائی کے معاملات پر نظر رکھنا شامل ہے۔
امریکہ کا محکمہٴہوم لینڈ سکیورٹی اور روس کا مساوی درجے کا ادارہ تکنیکی اطلاعات کے تبادلے کے لیے کوئی متبادل راستہ استعمال کریں گے۔
اس ضمن میں ذاتی اطلاعات کو الگ کیا جائے گا، لیکن، تخریب کاری کی کسی کارروائی کی اطلاع نیٹ ورک کے’انٹرنیٹ پروٹوکول ایڈریسز‘ پر جا سکے گی۔
امریکہ اور روس اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ سائبر اسپیس کے معاملے میں مسلح تنازع کا قانون لاگو ہو، اور چین نے حالیہ دنوں کے دوران اس بات عندیہ دیا ہے کہ وہ بھی اس اصول سے اتفاق کرتا ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ امریکی عہدے داروں نے نجی طور پر اِس توقع کا اظہار کیا ہے کہ اِسی نوعیت کا ایک معاہدہ چین کے ساتھ بھی طے پا جائے گا۔
وائٹ ہاؤس کی طرف سے جاری کردہ ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی صدر براک اوباما اور روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے اس معاہدے کو ’اپنے ملکوں کی سلامتی کو محفوظ بنانے کے لیے لازمی‘ قرار دیا ہے۔
سمجھوتے پر شمالی آئرلینڈ میںٕ منعقد ہونے والے ’جی ایٹ‘ سربراہ اجلاس کے دوران پیر کے روز دستخط کیے گئے، جس کا مقصد سائبر اسپیس کے کسی تنازع کے خطرے کو کم کرنے کے لیے، ممکنہ واقعات کےبارے میں براہِ راست، ’ریئل ٹائم‘ رابطہ قائم کرنا ہے۔
دونوں ممالک اس سہولت کو استعمال کریں گے، جسے سرد جنگ کے زمانے میں قائم کیا گیا تھا، تاکہ ایک دوسرے کو سائبر مشقوں کے بارے میں اطلاع دی جاسکے، سائبر واقعات کے بارے میں پوچھا جاسکے، اور مشتبہ کارروائی کی صورت میں اپنی تشویش کا اظہار کرنا ممکن ہو۔
معاہدے میں سیاسی، فوجی اور دہشت گرد خطرات کے ساتھ ساتھ جرائم سے متعلق کارروائی کے معاملات پر نظر رکھنا شامل ہے۔
امریکہ کا محکمہٴہوم لینڈ سکیورٹی اور روس کا مساوی درجے کا ادارہ تکنیکی اطلاعات کے تبادلے کے لیے کوئی متبادل راستہ استعمال کریں گے۔
اس ضمن میں ذاتی اطلاعات کو الگ کیا جائے گا، لیکن، تخریب کاری کی کسی کارروائی کی اطلاع نیٹ ورک کے’انٹرنیٹ پروٹوکول ایڈریسز‘ پر جا سکے گی۔
امریکہ اور روس اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ سائبر اسپیس کے معاملے میں مسلح تنازع کا قانون لاگو ہو، اور چین نے حالیہ دنوں کے دوران اس بات عندیہ دیا ہے کہ وہ بھی اس اصول سے اتفاق کرتا ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ امریکی عہدے داروں نے نجی طور پر اِس توقع کا اظہار کیا ہے کہ اِسی نوعیت کا ایک معاہدہ چین کے ساتھ بھی طے پا جائے گا۔