روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف اور امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ وہ شام اور یوکرین کے بارے میں بدھ کو زیورخ میں ملاقات کریں گے۔
امریکی محکمہٴ خارجہ نے جمعرات کو بتایا کہ لاوروف اور کیری نے ملاقات پر اتفاق ٹیلی فون پر کی جانے والی گفتگو کے بعد کیا۔
روسی وزارتِ خارجہ نے کہا ہے کہ کیری اور لاوروف نے ’روسی اور امریکی صدور کی ہدایات‘ کے تحت بات کی، جس سے قبل ولادیمیر پیوٹن اور براک اوباما نے بدھ کو ٹیلی فون پر شام اور یوکرین کے بحرانوں کے بارے میں گفتگو کی تھی۔
پچیس جنوری کے کثیر ملکی مذاکرات خطرے میں ہیں، جس کی وجہ سنی اکثریت والے ملک سعودی عرب اور زیادہ تر شیعہ آبادی والے ایران کے مابین سفارتی تناؤ ہے، جو سعودی شیعہ عالم کو سزائے موت دیے جانے پر اور بعدازاں تہران میں سعودی سفارت خانے پر مظاہرین کا حملہ ہے۔
امریکی محکمہٴ خارجہ کے ترجمان، جان کِربی کے بقول، ’یوکرین کے بارے میں، کیری اور لاوروف دونوں نے تمام فریق کی جانب سے مِنسک سمجھوتے کی مکمل عمل درآمد کی اہمیت کی نشاندہی کی‘۔ ترجمان نے مزید کہا کہ، ’اُنھوں نے مکالمے کو جاری رکھنے پر رضامندی کا اظہار کیا، جو وہ کرتے آئے ہیں، اور اس ماہ کی 20 تاریخ کو وہ زیورخ میں ملاقات کریں گے‘۔
اس پر، سعودی عرب اور خلیجی ملکوں نے ایران پر الزام لگایا ہے کہ وہ اُن کی شیعہ آبادی کو مسلک کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
کیری نے جمعرات کو لندن میں سعودی عرب کے وزیر خارجہ عبد الجبیر سے ملاقات کی۔
کیری نے اخباری نمائندوں کو بتاہا کہ، ’ہمارے درمیان شام کے بحران کے حل کی کوششوں کی ضرورت پر مکمل اتفاقِ رائے ہے۔ اس سلسلے میں ہم کام کرتے رہیں گے‘۔
وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ وہ تنازعے سے پاک ’مستحکم، محفوظ اور خوش حال خطے‘ کے خواہاں ہیں، جہاں ’ملک ایک دوسرے کے امور میں مداخلت نہ کریں‘۔
مخالفین کی نمائندگی کرنے کے لیے، سعودی عرب نے باغی گروہوں کا اتحاد تشکیل دیا ہے، حالانکہ شامی حکومت نے سوال اٹھایا ہے آیا فہرست میں کون شامل ہوگا۔
دسمبر میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے متفقہ طور پر ایک قرارداد منظور کی جس میں شام میں تقریباً پانچ برس سے جاری لڑائی کے خاتمے کے لیے امن عمل کی توثیق کی گئی۔ تاہم، اس میں شامی صدر بشار الاسد کی قسمت کے متنازع معاملے کو نہیں چھیڑا گیا۔