امریکی محکمہ خزانہ نے کرد اکثریتی علاقوں میں مظاہرین کے خلاف تہران کی جاری پکڑ دھکڑ کے خلاف بدھ کے روز تین ایرانی سیکیورٹی عہدے داروں پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بنا پر پابندیاں لگا دیں ہیں۔
امریکی محکمہ خزانہ کا کہنا ہے کہ ستمبر میں پولیس کی حراست میں 22 سالہ کرد خاتون مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے شروع ہونے کے بعد ان تازہ ترین امریکی پابندیوں میں ان اہم ایرانی عہدے داروں کو ہدف بنایا گیا ہے جنہوں نے شمالی کرد شہروں میں مظاہروں کے خلاف سخت کارروائیاں کیں۔
SEE ALSO: ایران میں مظاہرین کے خلاف بڑھتے تشدد پر اقوام متحدہ کی تنقیدان پابندیوں کا اطلاق کرد شہر سنندج کے گورنر حسن اصغری اور نفاذ قانون کی فورسز کے کمانڈر علی رضا مرادی پر کیا گیا ہے۔اس شہر میں مظاہروں کے دوران ایک 16 سالہ لڑکا سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مارا گیا تھا مگر عہدے داروں نے اس کی ہلاکت سے متعلق جھوٹ پر مبنی رپورٹس دیں۔
محکمہ خزانہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ایک اور کرد شہر مہاباد کے پاسداران انقلاب فورس کے کمانڈر محمد تغی اوسانلو پر بھی پابندیوں کا اطلاق کیا گیا ہے۔
SEE ALSO: ایران میں 300 سےزیادہ مظاہرین ہلاک ہو چکے ہیں: اقوام متحدہ کا حقوق انسانی کمیشننیویارک میں اقوام متحدہ میں ایران کے مشن نے فوری طور پر ان پابندیوں کے بارے میں تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
ان پابندیاں کے تحت نامزد افراد کے امریکی اثاثے منجمد ہو جائیں گے اور عام امریکیوں کو ان کے ساتھ لین دین کی اجازت نہیں ہو گی۔
امریکی وزارت خزانہ کے انڈر سیکرٹری برائے دہشت گردی اور مالیاتی انٹیلی جنس برائن نیلسن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایرانی حکومت مبینہ طور پر اپنے بچوں کو نشانہ بنا رہی ہے اور انہیں گولیاں مار رہی ہے جو بہتر مستقبل کے لیے سڑکوں پر نکلے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ایران میں مظاہرین کے خلاف جاری زیادتیاں بند کی جانی چاہیں جن میں شہر مہاباد بھی شامل ہے جہاں حال ہی میں مظاہرین کےخلاف کارروائیاں ہوئیں۔