رسائی کے لنکس

کیا پاکستان میں فوج کا سیاست میں کردار واقعی ختم ہو سکتا ہے؟


پاکستان کے سب کدوش ہونے والے سربراہ، جنرل قمر جاوید باجوہ، یومِ پاکستان کی پریڈ میں شرکت کے موقعے پر۔ فوٹو اے ایف پی 23 مارچ 2019
پاکستان کے سب کدوش ہونے والے سربراہ، جنرل قمر جاوید باجوہ، یومِ پاکستان کی پریڈ میں شرکت کے موقعے پر۔ فوٹو اے ایف پی 23 مارچ 2019

پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف نے لیفٹننٹ جنرل عاصم منیر کو نیا آرمی چیف تعینات کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ لیکن سیاسی اور عوامی حلقوں میں موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا یوم شہدا پر خطاب موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ آرمی چیف نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ فوج یہ فیصلہ کر چکی ہے کہ آئندہ کبھی سیاست میں مداخلت نہیں کرے گی۔

سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا یہ اعلان خوش آئند ہے، تاہم پاکستان میں مضبوط جمہوری اور سیاسی نظام کے بغیر اس پر عمل درآمد اتنا آسان نہیں ہو گا۔

پاکستانی فوج کے سب سے سینئر جنرل کو بری فوج کا سربراہ مقرر کرنے کا فیصلہ ایسے وقت پر ہوا ہے جب جنرل قمر جاوید 29 نومبر کو اپنی مدتِ ملازمت پوری ہونے پر ریٹائر ہو جائیں گے۔

بدھ کو راولپنڈی میں یوم شہدا کی تقریب سے خطاب میں آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کا مزید کہنا تھا کہ فوج کی سیاست میں مداخلت غیر آئینی ہے۔

جنرل باجوہ نے سیاسی جماعتوں پر بھی زور دیا کہ وہ غیر ضروری تنقید کے بجائے سیاسی معاملات کو افہام و تفہیم سے حل کریں۔

فوج کی عدم مداخلت پارلیمان کی مضبوطی سے مشروط

مبصرین کے مطابق آنے والے سربراہ کے لیے ادارے کی ساکھ بہتر کرنے کے ساتھ ساتھ فوج کو سیاسی معاملات سے الگ رکھنا ایک چیلنج ہو گا۔

سیاسی اور سیکیورٹی امور کے تجزیہ کار زاہد حسین کہتے ہیں کہ جنرل باجوہ نے اپنی تقریر کے ذریعے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ سیاست سے دُور رہنے کی پالیسی صرف فردِ واحد کی نہیں بلکہ بطور ادارہ فوج اب یہ فیصلہ کر چکی ہے۔

ان کے مطابق فوج کو یہ ادراک بھی ہے کہ ماضی میں فوج کی سیاسی معاملات میں ہونے والی مداخلت غیر آئینی تھی۔

جنرل قمر جاوید باجوہ نے بدھ کی شب یوم شہدا کی تقریب سے خطاب میں اعلان کیا کہ فوج فیصلہ کر چکی ہے کہ اب سیاست میں مداخلت نہیں کرے گی۔
جنرل قمر جاوید باجوہ نے بدھ کی شب یوم شہدا کی تقریب سے خطاب میں اعلان کیا کہ فوج فیصلہ کر چکی ہے کہ اب سیاست میں مداخلت نہیں کرے گی۔

اس سوال پر کہ سیاسی جماعتیں جنرل باجوہ کے بیان کو کس طرح لیں گی؟ زاہد حسین نے کہا کہ زیادہ تر سیاسی جماعتیں جنرل باجوہ کے بیان کو مثبت ہی لے رہی ہیں۔ لیکن اُن کے بقول عمران خان بظاہر چاہتے تھے کہ فوج سیاست میں رہے ۔

حزبِ اختلاف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے رہنما غیر اعلانیہ طور پر جنرل عاصم منیر کی بطور آرمی چیف تقرری پر تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے بار ہا اپنے انٹرویوز میں کہا کہ موجودہ حکومت اپنی مرضی کا آرمی چیف لگا کر انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنانا چاہتی ہے۔

تجزیہ نگار مظہر عباس کہتے ہیں کہ حکومت نے سنیارٹی لسٹ کے مطابق سینئر ترین جنرل کو آرمی چیف نامزد کیا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ عاصم منیر پیشہ ور فوجی آفیسر ہیں اور اگر عمران خان اس معاملے کو مزید متنازع بنائیں گے تو اس کا نقصان ان ہی کی سیاست کو ہوگا۔

عمران خان کے اس بیان پر کہ حکومت اپنی مرضی کا آرمی چیف لگا کہ انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنائے گی؟ مظہر عباس کا کہنا تھا کہ آئینی طور پر فوج کا کام الیکشن کروانا نہیں بلکہ یہ حکومت اور الیکشن کمیشن کا کام ہے۔

یاد رہے کہ عمران خان کی اپریل میں حکومت ختم ہونے کے بعد وہ یہ کہتے رہے ہیں کہ فوج کو نیوٹرل نہیں رہنا چاہیے۔

سیاسی اور غیر سیاسی معاملات کا تعین ضروری

پاکستان میں جمہوریت کے فروغ کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم 'پلڈاٹ' کے سربراہ احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ سیاسی معاملات سے الگ تھلگ رہنے کا جنرل باجوہ کا اعلان خوش آئند ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ یہ طے ہونا بھی ضروری ہے کہ فوج کے نزدیک کون سے معاملات سیاسی ہیں اور کون سے غیر سیاسی ہیں۔

اُن کے بقول یہ عین ممکن ہے کہ اسٹیبلشمنٹ جن معاملات کو سیاسی نہیں سمجھتی درحقیقت وہ سیاسی ہوں اور ان میں فوج کی مداخلت اگر جاری رہے گی تو یہ نقصان دہ ہے۔

احمد بلال محبوب نے کہا کہ فوج کے متنازع ہونے کا سبب بھی یہی ہے کہ وہ نہ صرف سیاست میں مداخلت کرتی رہی ہے بلکہ ایک متوازی حکومت بھی چلاتی رہی ہے۔

احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ آئین کو بنیاد بنا کر ہی یہ فیصلہ ہونا چاہیے کہ کون سے معاملات فوج کے دائرہ اختیار میں نہیں ہیں جن میں انہیں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔

زاہد حسین کے مطابق پاکستان میں حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان ایک سیاسی بحران کی کیفیت ہے تو اس صورت میں فوج کو ثالثی کا موقع مل جاتا ہے۔

اُن کے بقول اگر سیاست دان یہ طے کر لیں کہ سارے معاملات پارلیمان میں طے ہوں گے تو پھر فوجی مداخلت کا دروازہ بھی بند ہو جائے گا۔

زاہد حسین کہتے ہیں کہ اگر ملک میں سیاسی محاذ آرائی جاری رہی تو فوج کو سیاسی امور سے مکمل طور پر الگ رکھنا ممکن نہیں ہو گا۔

غیر سیاسی ہونے کا اعلان لیکن تقریر میں سیاسی معاملات کا ذکر!

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جنرل باجوہ نے اپنی آخری تقریر میں کئی سیاسی معاملات پر بات بھی کی ہے۔

احمد بلال محبو ب کے بقول تقریر میں بہت سی ایسی باتیں تھیں جو عموماً فوج کے سپہ سالار کی جانب سے نہیں کی جانی چاہئیں۔

جنرل باجوہ نے اپنی تقریر میں 1971 میں مشرقی پاکستان کے الگ ہونے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ایک فوجی نہیں بلکہ سیاسی غلطی تھی۔

زاہد حسین کے بقول مشرقی پاکستان کے بارے میں جنرل باجوہ کا بیان حیران کن ہے۔ ان کے مطابق ممکنہ طور پر اس بیان کی وجہ سوشل میڈیا پر سقوط ِڈھاکہ میں فوج کے کردار پر ہونے والی تنقید تھی۔

انہوں نے کہا کہ جنرل باجوہ نے کئی معاملات کا ذکر کیا جو سیاسی نوعیت کے تھے اور یہ سمجھنا کہ فوج سیاست سے مکمل طور پر الگ ہو جائے گی ممکن نہیں ہے کیوں کہ فوج کا اثرو رسوخ کئی معاملات میں اب بھی گہرا ہے۔


احمد بلال محبوب کے مطابق 1971 میں شکست کے ذمہ داروں کے تعین کا فیصلہ غیر جانب دار کمیشن کر سکتا ہے اور تقریر میں ان موضوعات کا ذکر کرنا سیاسی بیانات کے مترادف ہے۔

انہوں نے کہا کہ ماضی کے کئی متنازع معاملات کا تذکرہ کرنا ایک نئی بحث کو جنم دیتا ہے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ اب جب کہ فوج کے سربراہ سیاسی مداخلت کی پالیسی کو ترک کرنے کی بات کررہے ہیں تو ان متنازع موضوعات کے ذکر کی بجائے ماضی سے سیکھتے ہوئے آگے بڑھنا ضروری ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر تمام ادارے آئین کے تابع رہ کر اپنے دائرہ کار میں کام کریں تو ملک میں جمہوریت بھی مضبوط ہو گی اور ادارے بھی۔

XS
SM
MD
LG