امریکہ کی طرف سے جوہری تجارت میں ملوث ہونے کے الزام میں سات پاکستانی کمپنیوں پر پابندی عائد کردی گئی ہے جس کے بعد بعض حلقوں کی طرف سے خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس اقدام سے نیوکلیئر سپلائرز گروپ (این ایس جی) کی رکنیت حاصل کرنے کی پاکستانی کوششوں کو دھچکا لگ سکتا ہے۔
امریکی بیورو آف انڈسٹری اور سکیورٹی کی طرف سے گزشتہ ہفتے 23 کمپنیوں پر پابندیاں عائد کی گئیں جن میں جنوبی سوڈان کی 15، پاکستان کی سات اور سنگاپور کی ایک کمپنی شامل ہے۔
ان کمپنیوں کی سرگرمیوں کو امریکی پالیسی سے متصادم اور قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا گیا ہے۔
پابندی کے بعد یہ تمام کمپنیاں بین الاقوامی سطح پر تجارت سے محروم ہوجائیں گی۔
پابندی کا سامنا کرنے والی پاکستانی کمپنیوں میں سے تین کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ مبینہ طور پر جوہری مواد کی فراہمی کی غیر صحت مندانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں جب کہ دو کمپنیوں پر الزام ہے کہ وہ جوہری مواد سے متعلق سامان کی فراہمی میں ملوث ہیں۔
دیگر دو پاکستانی کمپنیوں کو ایسی کمپنیوں کے لیے کام کرنے کے الزام کا سامنا ہے جن پر پہلے ہی پابندیاں عائد ہیں۔
یہ اقدام ایسے وقت سامنے آیا ہے جب پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کشیدہ ہیں اور واشنگٹن کی طرف سے خاص طور پر انسدادِ دہشت گردی کی پاکستانی کوششوں پر شکوک و شہبات اور تحفظات کا تواتر سے اظہار کرتے ہوئے اسلام آباد سے مزید اور سنجیدہ کارروائیوں کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
پاکستان 48 رکنی نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں شامل ہونے کے لیے کوشاں ہے لیکن امریکہ اور بعض مغربی ممالک اس کے حامی نہیں۔
اس گروپ میں شمولیت سے پرامن مقاصد کے لیے جوہری مواد کی تجارت کی جا سکتی ہے۔
اسلام آباد میں واقع ایک مؤقر تھنک ٹینک 'انسٹیٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز' کے ڈائریکٹر نجم رفیق کہتے ہیں کہ امریکہ کو پاکستان کے جوہری پروگرام سے متعلق خدشات رہے ہیں اور یہ تازہ اقدام پاکستان کے لیے بظاہر فائدے مند نہیں ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا، "امریکہ کو پاکستان کے جوہری پروگرام سے متعلق خدشات رہے ہیں کہ یہ کسی بھی وقت دہشت گردوں کے ہاتھ لگ سکتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ جو نیا اقدام آیا ہے، یہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔۔۔ یہ واضح سمت دکھائی دیتی ہے کہ امریکہ کسی طور بھی پاکستان کو نیوکلیئر سپلائرز گروپ کا حصہ نہیں دیکھنا چاہتا۔ اس سے پاکستان کی کوششوں کو دھچکا لگے گا۔"
لیکن دفاعی و سلامتی کے امور کے سینئر تجزیہ کار اکرام سہگل کہتے ہیں کہ پابندیوں کا یہ سلسلہ کوئی نئی بات نہیں ہے اور ان کے خیال میں اس سے پاکستان کو جوہری حوالے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔
"یہ (پابندیوں کا) سلسلہ پاکستان کے جوہرے تجربے سے پہلے کا چلا آ رہا ہے۔ یہ صرف پاکستان پر ہی نہیں، بھارت کی بھی کمپنیاں ہیں۔ جہاں پر انھیں (امریکہ کو) شک پڑتا ہے کہ (کمپنیاں) جوہری پھیلاؤ کے لیے استعمال کر رہی ہیں تو وہ پابندی لگا دیتے ہیں۔"
پاکستان کی طرف سے باضابطہ طور پر تو اس امریکی اقدام پر کوئی ردِعمل تاحال سامنے نہیں آیا لیکن اس کا مؤقف رہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام مکمل طور پر محفوظ اور بین الاقوامی قواعد و ضوابط کے تحت ہے اور اسلام آباد جوہری عدم پھیلاؤ کے عزم پر کاربند ہے۔