ایسے میں جب بالواسطہ جوہری مذاکرات کا نیا دور پھر سے شروع ہونے والا ہے، بائیڈن انتظامیہ نے اشارہ دیا ہے کہ ایران کو اس بات کی توقع نہیں ہونی چاہیے کہ امریکہ اسے نئی مراعات دے گا۔
انتظامیہ کے ایک سینئر اہلکار نے جمعرات کے روز اخباری نمائندوں کو بتایا کہ جو مراعات دی جاسکتی ہیں انہیں واضح کیا جا چکا ہے۔ یہ مراعات اس لیے دی جا سکتی ہیں تاکہ 2015ء کے سنگ میل کی حیثیت رکھنے والے جوہری معاہدے پر دوبارہ بات چیت ہو سکے، جس سے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018ء میں الگ ہونے کا اعلان کیا تھا۔
اہلکار نے کہا کہ مذاکرات کی کامیابی یا ناکامی کا انحصار اب ایران پر ہے، جسے سیاسی فیصلہ کرنا ہوگا کہ اسے دی گئی مراعات قبول ہیں اور وہ معاہدے پر عمل درآمد کی طرف لوٹ آئے گا۔
اہلکار نے نامہ نگاروں سے امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے منعقدہ کانفرنس کال پر گفتگو کی، ایسے میں جب ویانا میں مذاکرات دوبارہ جاری تھے۔ عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی جس کا مقصد بند کمرے کے مذاکرات کے چوتھے دور کے بارے میں امریکی مؤقف بیان کرنا تھا۔ اجلاس میں شریک وفود امریکی اور ایرانی وفد کے لیے پیغام رسانی کا کام کر رہے ہیں۔
یہ بیان ایسے میں سامنے آیا ہے جب امریکی وزیر خارجہ، اینٹنی بلنکن نے دورہ یوکرین کے دوران شکوہ کیا کہ ایران اپنی ضد پر اڑا ہوا ہے۔
یوکرین کے شہر کیو میں این بی سی نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں بلنکن نے کہا کہ ''جس بات کا ہمیں علم نہیں وہ یہ ہے آیا نیوکلیئر سمجھوتے پر مکمل عمل درآمد کے معاملے پر ایران ضروری فیصلہ کرنے پر تیار بھی ہے''۔
بقول ان کے، ''بدقسمتی سے ایران اپنے پروگرام کے خطرناک جزو کی جانب پلٹ رہا ہے جس کے بارے میں جوہری معاہدے میں اس پر ممانعت لاگو کی گئی تھی۔ اب فیصلہ یہ ہونا ہے آیا وہ ضروری اقدام لینے پر تیار ہے یا نہیں''۔
ایران نے اب تک اس بات کا عندیہ نہیں دیا کہ وہ سابق امریکی صدر ٹرمپ کی لگائی گئی پابندیاں اٹھائے جانے سے کسی کم سطح پر تیار ہوگا، اور وہ ان تجاویز کا مذاق اڑاتا رہا ہے کہ وہ معاہدے کی خلاف ورزی کی جانب بڑھ سکتا ہے۔ حالیہ ہفتوں کے دوران ایرانی عہدے داروں نے کہا ہے کہ امریکہ نے قابل قدر مراعات کی پیش کش کی ہے لیکن یہ پابندیوں میں نرمی کے لیے ناکافی ہیں۔ تاہم، انھوں نے یہ بات نہیں بتائی کہ بدلے میں ایران کیا کچھ دے سکتا ہے۔
انتظامیہ کے اہلکار نے کہا کہ امریکہ نیوکلیئر معاہدے کی واضح شرائط پر دھیان مبذول کیے ہوئے ہے، جسے 'جوائنٹ کمپری ہنسو پلان آف ایکشن' کا نام دیا جاتا ہے، جس سمجھوتے پر اوباما انتظامیہ کے دور میں مذاکرات ہوئے تھے۔ لیکن، تب ہی ایسا ہوگا جب ایران خود بھی تیار ہو۔ اہلکار نے کہا کہ امریکہ اس معاہدے میں کی گئی باتوں کے علاوہ زیادہ مراعات نہیں دے گا، تاکہ معاہدے پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔
سال 2015ء کے نیوکلیئر معاہدے کے تحت ایٹمی پروگرام ترک کرنے کے بدلے ایران کو پابندیوں میں نرمی کی صورت میں کئی آسانیاں فراہم کی گئیں۔ صدر ٹرمپ نے بعدازاں امریکی پابندیوں کو وسیع کرنے کے بعد تعزیرات پھر سے لاگو کردیں، جس کے نتیجے میں پچھلی نرمی کا معاملہ ختم ہوا۔ ایران نے اس کا جواب یورینئم کی افزودگی کو اس حد کو پار کر کے کیا،جس پر معاہدے میں اتفاق کیا تھا۔ ایران نے ساتھ ہی بہتر کارکردگی والے سینٹری فیوجز لگائے اور دیگر قابل اعتراض اقدامات کیے جیسا کہ بھاری پانی کی پیداوار میں اضافہ کرنا۔
ویانا میں بات چیت کے گزشتہ ادوار کے دوران انتظامیہ نے بتایا تھا کہ ایران کو کی جانے والی پیش کش میں لچک ہوسکتی ہے۔ جس میں معاہدے کے متن کے آگے بڑھ کر غیر جوہری معاملات میں پابندیوں میں نرمی شامل ہے۔