امریکہ نے کہا ہے کہ محکمۂ خارجہ کی جانب سے کی جانے والی تحقیقات نے بھی اقوامِ متحدہ کی اس رپورٹ کی تصدیق کردی ہے جس میں روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کا ذمہ دار میانمار (برما) کی فوج کے سربراہ اور پانچ دیگر اعلیٰ افسران کو ٹہرایا گیا تھا۔
یہ بات اقوامِ متحدہ میں امریکہ کی سفیر نکی ہیلی نے منگل کو ہونے والے سلامتی کونسل کے اجلاس میں کہی جس میں میانمار میں روہنگیا اقلیت کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک اور اس بارے میں گزشتہ روز جاری کی جانے والی اقوامِ متحدہ کی رپورٹ پر غور کیا گیا۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے نکی ہیلی کا کہنا تھا کہ امریکی محکمۂ خارجہ نے اپنے طور پر میانمار کی شمالی ریاست راکھین میں گزشتہ سال پیش آنے والے واقعات کی تحقیقات کی ہیں اور ان تحقیقات کے نتائج سے اقوامِ متحدہ کے تحقیقاتی کمیشن کے دعووں اور الزامات کی تصدیق ہوتی ہے۔
اقوامِ متحدہ کے تین رکنی آزاد بین الاقوامی کمیشن نے میانمار میں اقلیتوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کے بارے میں منگل کو جنیوا میں اپنی رپورٹ جاری کی تھی جس میں راکھین اور دو دیگر ریاستوں میں نسلی اقلیتوں کے خلاف مظالم کا ذمہ دار میانمار کی فوجی قیادت کو ٹہرایا گیاتھا۔
عالمی کمیشن نے کہا ہے کہ راکھین میں گزشتہ سال پیش آنے والے واقعات باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کی جانے والی نسل کشی تھی جس پر میانمار کی فوج کے چھ اعلیٰ جرنیلوں کے خلاف عالمی عدالت میں مقدمہ چلایا جانا چاہیے۔
منگل کی شام نیویارک میں سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی سفیر نے کہا کہ امریکی محکمۂ خارجہ نے اپنی رپورٹ کے لیے ایک ہزار سے زائد روہنگیا مسلمانوں کے انٹرویو کیے جن سے گزشتہ سال کے واقعات کی ہولناک تصویر سامنے آئی ہے۔
نکی ہیلی نے کونسل کو بتایا کہ جن افراد کے انٹرویوز کیے گئے ان میں سے 82 فی صد نے اپنی آنکھوں سے کسی کو قتل ہوتے دیکھا، نصف سے زائد افراد کے سامنے خواتین کی آبرو ریزی کی گئی جب کہ لگ بھگ 250 افراد نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے 100 سے زائد افراد کو ایک ساتھ قتل یا زخمی ہوتے ہوئے دیکھا تھا۔
نکی ہیلی کا کہنا تھا کہ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی رپورٹ کے مطابق ان میں سے بیشتر مظالم میں برما کی فوج اور دیگر سکیورٹی ادارے براہِ راست ملوث تھے۔
گو کہ نکی ہیلی نے اپنے خطاب میں "نسل کشی" کا لفظ استعمال نہیں کیا جو اقوامِ متحدہ کے ماہرین نے روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ برمی فوج کے سلوک کے بارے میں لکھا ہے، لیکن امریکی سفیر کا کہنا تھا کہ دنیا اب مزید اس مشکل سچ سے آنکھیں نہیں چرا سکتی کہ راکھین میں کیا ہوا تھا۔
نکی ہیلی کے بیان سے امریکی محکمۂ خارجہ کی روہنگیا بحران سے متعلق رپورٹ کے مندرجات پہلی بار منظرِ عام پر آئے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق محکمۂ خارجہ کے ماہرین نے یہ رپورٹ رواں سال اپریل کے اختتام پر مکمل کی تھی جس کے لیے بنگلہ دیش کے کیمپوں میں مقیم 1024 روہنگیا مہاجرین کے انٹرویوز کیے گئے۔
تاحال یہ واضح نہیں کہ امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو آیا یہ رپورٹ ذرائع ابلاغ کو جاری کریں گے یا نہیں۔ قبل ازیں اس رپورٹ کو اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے اجرا سے ایک روز قبل، پیر کو جاری کیا جانا تھا لیکن امریکی محکمۂ خارجہ نے رپورٹ پر مزید غور کے لیے اس کا اجرا روک دیا تھا۔
بدھ کو ہونے والے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے کہا کہ عالمی ادارے کے ماہرین کی رپورٹ سنجیدہ غور کی متقاضی ہےاور میانمار کے مختلف نسلی گروہوں کے درمیان حقیقی مفاہمت کے لیے ضروری ہے کہ مظالم کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔
گزشتہ سال راکھین میں میانمار کی فوج اور بودھ انتہا پسندوں کی پرتشدد کارروائیوں کے نتیجے میں سیکڑوں افراد ہلاک ہوئے تھے جب کہ سات لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمانوں کو بنگلہ دیش ہجرت کرنا پڑی تھی جہاں وہ تاحال عارضی کیمپوں میں مقیم ہیں۔