امریکی وزیرِ دفاع چک ہیگل نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ شام کی صورتِ حال کے تناظر میں تمام ممکنات پر غور کر رہا ہے
واشنگٹن —
امریکہ نے واضح کیا ہے کہ وہ مبینہ کیمیاوی حملے کے ردِ عمل میں شام کے خلاف "عالمی برادری کی رضامندی اور قانونی جواز کی موجودگی" میں ہی کوئی قدم اٹھائے گا۔
انڈونیشیا کے دورے پر موجود امریکی وزیرِ دفاع چک ہیگل نے پیر کو جکارتہ میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک شام کی صورتِ حال کے تناظر میں تمام ممکنات پر غور کر رہا ہے اور اس بارے میں اپنے اتحادیوں اور عالمی برادری سے رابطے میں ہے۔
جناب ہیگل نے کہا کہ شام سے ملنے والی انٹیلی جنس اطلاعات کا جائزہ لیا جارہا ہے اور جلد ہی حقائق واضح ہوجائیں گے۔ انہوں نے واضح کیا کہ اگر شام کی صورتِ حال کے ردِ عمل میں کوئی قدم اٹھایا گیا تو وہ عالمی برادری کی رضامندی اور قانونی دائرہ کار میں ہوگا۔
پریس کانفرنس کے دوران میں امریکی وزیرِ دفاع نے شام کے خلاف کسی فوجی کاروائی کے امکان سے متعلق سوال اور وہائٹ ہاؤس کے زیرِ غور فوجی آپشنز کے متعلق بات کرنے سے گریز کیا۔
ایک اعلیٰ امریکی عہدیدار نے ذرائع ابلاغ کوبتایا ہے کہ وزیرِ دفاع چک ہیگل شام کی صورتِ حال پر اپنے برطانوی اور فرانسیسی ہم منصبوں سے بھی فون پر بات کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
امریکی عہدیدار نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ذرائع ابلاغ کو بتا یا ہے کہ بین الاقوامی برادری کو اس بارے میں یقین ہوتا جارہا ہے کہ شامی حکومت نے گزشتہ ہفتے دارالحکومت دمشق کے ایک نواحی رہائشی علاقے پر حملے میں واقعی کیمیائی ہتھیار استعمال کیے تھے۔
انسانی حقوق کی مقامی تنظیموں اور شامی حزبِ اختلاف نے اس حملے میں سیکڑوں عام شہریوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا ہے۔ شامی حکومت اقوامِ متحدہ کے معائنہ کاروں کو تحقیقات کے لیے علاقے میں جانے کی اجازت دینے کے معاملے پر بھی لیت و لعل سے کام لیتی رہی ہے جس کے نتیجے میں عالمی برادری کے خدشات میں اضافہ ہوا ہے۔
روس کا انتباہ
دریں اثنا شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت کے دیرینہ اتحادی روس نے مغربی ممالک کو خبردار کیا ہے کہ وہ شام میں کسی بھی قسم کی فوجی مداخلت سے باز رہیں۔
روس کے وزیرِ خارج سرجئی لاوروف نے پیر کو ماسکو میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اقوامِ متحدہ کے مینڈیٹ کے بغیر مغربی طاقتوں کی جانب سے شام کے خلاف طاقت کا استعمال عالمی قانون کی خلاف ورزی ہوگا۔
روسی وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ اگر امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے شام میں فوجی مداخلت کی تو وہ اپنی "ماضی کی غلطیوں" کو دہرائیں گے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ان کا ملک شام کی خانہ جنگی کے معاملے پر کسی ممکنہ فوجی تصادم کا حصہ نہیں بنے گا۔
شام میں گزشتہ دو برسوں سے زائد عرصے سے جاری خانہ جنگی کے دوران میں روس بشار الاسد کی حکومت کی حمایت کرتا رہا ہے اور شام میں کسی سیاسی تبدیلی یا بیرونی مداخلت کی مزاحمت کرتا آیا ہے۔
انڈونیشیا کے دورے پر موجود امریکی وزیرِ دفاع چک ہیگل نے پیر کو جکارتہ میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک شام کی صورتِ حال کے تناظر میں تمام ممکنات پر غور کر رہا ہے اور اس بارے میں اپنے اتحادیوں اور عالمی برادری سے رابطے میں ہے۔
جناب ہیگل نے کہا کہ شام سے ملنے والی انٹیلی جنس اطلاعات کا جائزہ لیا جارہا ہے اور جلد ہی حقائق واضح ہوجائیں گے۔ انہوں نے واضح کیا کہ اگر شام کی صورتِ حال کے ردِ عمل میں کوئی قدم اٹھایا گیا تو وہ عالمی برادری کی رضامندی اور قانونی دائرہ کار میں ہوگا۔
پریس کانفرنس کے دوران میں امریکی وزیرِ دفاع نے شام کے خلاف کسی فوجی کاروائی کے امکان سے متعلق سوال اور وہائٹ ہاؤس کے زیرِ غور فوجی آپشنز کے متعلق بات کرنے سے گریز کیا۔
ایک اعلیٰ امریکی عہدیدار نے ذرائع ابلاغ کوبتایا ہے کہ وزیرِ دفاع چک ہیگل شام کی صورتِ حال پر اپنے برطانوی اور فرانسیسی ہم منصبوں سے بھی فون پر بات کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
امریکی عہدیدار نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ذرائع ابلاغ کو بتا یا ہے کہ بین الاقوامی برادری کو اس بارے میں یقین ہوتا جارہا ہے کہ شامی حکومت نے گزشتہ ہفتے دارالحکومت دمشق کے ایک نواحی رہائشی علاقے پر حملے میں واقعی کیمیائی ہتھیار استعمال کیے تھے۔
انسانی حقوق کی مقامی تنظیموں اور شامی حزبِ اختلاف نے اس حملے میں سیکڑوں عام شہریوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا ہے۔ شامی حکومت اقوامِ متحدہ کے معائنہ کاروں کو تحقیقات کے لیے علاقے میں جانے کی اجازت دینے کے معاملے پر بھی لیت و لعل سے کام لیتی رہی ہے جس کے نتیجے میں عالمی برادری کے خدشات میں اضافہ ہوا ہے۔
روس کا انتباہ
دریں اثنا شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت کے دیرینہ اتحادی روس نے مغربی ممالک کو خبردار کیا ہے کہ وہ شام میں کسی بھی قسم کی فوجی مداخلت سے باز رہیں۔
روس کے وزیرِ خارج سرجئی لاوروف نے پیر کو ماسکو میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اقوامِ متحدہ کے مینڈیٹ کے بغیر مغربی طاقتوں کی جانب سے شام کے خلاف طاقت کا استعمال عالمی قانون کی خلاف ورزی ہوگا۔
روسی وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ اگر امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے شام میں فوجی مداخلت کی تو وہ اپنی "ماضی کی غلطیوں" کو دہرائیں گے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ان کا ملک شام کی خانہ جنگی کے معاملے پر کسی ممکنہ فوجی تصادم کا حصہ نہیں بنے گا۔
شام میں گزشتہ دو برسوں سے زائد عرصے سے جاری خانہ جنگی کے دوران میں روس بشار الاسد کی حکومت کی حمایت کرتا رہا ہے اور شام میں کسی سیاسی تبدیلی یا بیرونی مداخلت کی مزاحمت کرتا آیا ہے۔