امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر نے کہا ہے کہ افغانستان میں امریکی فوج کی تعداد 8600 تک لے جانے کی تجویز زیر غور ہے۔
ان کے بقول، ’’ایسا افغانستان میں موجود کمانڈرز کی سفارشات کی روشنی میں سوچا جا رہا ہے کہ ہم اپنے فوجیوں کی تعداد با آسانی آٹھ ہزار چھ سو تک لے جا سکتے ہیں۔ ہم پر اعتماد ہیں کہ ہم اتنی تعداد کے ساتھ اپنا مشن جاری رکھ سکیں گے‘‘۔
امریکی وزیر دفاع، جو اس وقت نیٹو ملکوں کے اجلاس میں شرکت کے لئے بیلجئیم کے شہر برسلز میں ہیں، صحافیوں کے سوالات کے جواب دے رہے تھے۔
وائس آف امریکہ کی نمائندہ کارلا بیب کے مطابق، طالبان سے ممکنہ سمجھوتے کی صورت میں افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ جونہی تشدد کے واقعات کم ہوتے ہیں، انخلا شروع ہو سکتا ہے۔
اس سوال پر آیا یہ انخلا طالبان سے بات چیت کے نتیجے سے بھی مشروط ہے، ایسپر نے کہا کہ ’’تشدد میں کمی کی شرط زیر غور ہے۔۔میں امریکی اتحادیوں سے اس بارے میں بھی بات چیت کر رہا ہوں‘‘۔
تاہم، انہوں نے واضح کیا کہ افغانستان سے تمام امریکی فوجیوں کے انخلا کی بات نہیں ہو رہی۔ ان کے بقول، ’’ہم نے بارہا کہا ہے کہ میدان جنگ میں موجود کمانڈرز کی سفارشات کی روشنی میں ہم اپنے فوجیوں کی تعداد با آسانی آٹھ ہزار چھ سو تک لے جا سکتے ہیں۔ ہم پر اعتماد ہیں کہ ہم اس تعداد کے ساتھ اپنا مشن جاری رکھ سکیں گے‘‘۔
دوسری طرف، ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق، طالبان نے امریکی عہدیداروں سے کئی ہفتوں کی بات چیت کے بعد واشنگٹن سے مطالبہ کیا ہے کہ ان کی جانب سے ابتدائی طور پر سات روزہ مختصر جنگ بندی کی پیشکش کا مثبت جواب دیا جائے، ورنہ وہ مذاکرات ادھورے چھوڑ کر چلے جائیں گے۔
خبر رساں ادارے نے یہ خبر دو طالبان عہدےداروں کے حوالے سے دی ہے۔
اطلاعات کے مطابق، طالبان کی جانب سے مختصر جنگ بندی کی پیشکش اس لئے کی گئی ہے کہ وہ حتمی امن معاہدے کے بغیر کسی با ضابطہ جنگ بندی کا وعدہ نہیں کرنا چاہتے۔
یہ صورتحال ایک ایسے وقت پر سامنے آئی ہے جب واشنگٹن نے کہا ہے کہ جنگجووں کی جانب سے تشدد میں کمی کی پیشکش پر سمجھوتہ ہونے والا ہے؛ جبکہ افغان صدر اشرف غنی نے اپنی ٹویٹ میں کہا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے انہیں بتایا ہے کہ ’’طالبان سے بات چیت میں بامعنی پیش رفت ہوئی ہے‘‘۔