روس کے صدر ولادیمیر پوٹن نے الزام عائد کیا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی یوکرین تنازع میں ماسکو کے سیکیورٹی مطالبے کو نظر انداز کر رہے ہیں اور امریکہ روس کو جنگ میں دھکیلنا چاہتا ہے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق روس کے صدر نے منگل کو اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ماسکو یوکرین معاملے پر تناؤ کو کم کرنے کے لیے بات چیت کے لیے تیار ہے۔
پوٹن کا یہ بیان ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب مغربی ملکوں کے سربراہان روس اور یوکرین کے درمیان جنگ چھڑنے کے خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔
امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے گزشتہ ہفتے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ روس فروری میں یوکرین پر چڑھائی کر سکتا ہے۔
دوسری جانب امریکی سینیٹ میں ایوان کے دونوں جانب سے تعلق رکھنے والے قانون سازوں نے مشترکہ طور پر روس کے خلاف تعزیراتی اقدام کی تجویز پیش کی ہے۔ امورِ خارجہ کی قائمہ کمیٹی کے سربراہ کا کہنا ہے کہ یوکرین پر حملے کی صورت میں روس کو "تمام تعزیرات میں سب سے بڑی تعزیرات "کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔
کمیٹی کے چیئرمین رابرٹ مینڈیز کے بقول، سینیٹر ایسا پیکیج مرتب کرنے کے اقدام کی تجویز پر متفق ہیں جس سے یوکرین پر جارحیت کی صورت میں روس کے اعلیٰ سطح کے عہدے داروں سے لے کر عام روسی شہری تک کواس کی انتہائی سخت مالی قیمت چکانا پڑے گی۔
مینڈیز نے اتوار کو نشریاتی ادارے 'سی این این' کے پروگرام 'اسٹیٹ آف دی یونین' شو کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا تھا کہ تجویز کردہ پیکیج کے مطابق روس کے اہم بینکوں کے خلاف سخت پابندیاں عائد ہوں گی، روس کی معیشت ناکارہ ہو کر رہ جائے گی، جس کا اثر روس کے ایک عام شہری کے اکاؤنٹ اور پینشن تک پر پڑے گا۔
ساتھ ہی، مینڈیز نے کہا کہ انھیں توقع ہے کہ سینیٹ یوکرین کو مہلک ترین اسلحہ فراہم کرنے کی سفارش کے اقدام کے علاوہ روس کی معیشت کے تمام کلیدی شعبہ جات پر تعزیرات عائد کرنے کے حق میں ووٹ دے گی، اس کے علاوہ روس پر قدغن لاگو کی جائے گی تا کہ وہ بین الاقوامی منڈی میں ریاستی قرضہ جات دینے کی استعداد کے قابل نہ رہے۔
SEE ALSO: روس یوکرین کی سرحد پر فوج بڑھانے کی وضاحت دے: سلامتی کونسل کے اجلاس میں امریکہ کا مطالبہسینیٹ کی جانب سے یہ اقدام اس لیے ضروری ہو گیا ہے چونکہ روس نے یوکرین کے شمال، مشرق اور جنوب کی سرحدوں پر 100000سے زائد فوجی تعینات کر رکھے ہیں۔ 2014ء میں روس نے یوکرین کے خطے کرائمیا پر حملہ کرکے اس کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔ اس کے علاوہ، یوکرین کے علاقے ڈوناباس میں روس کی حمایت میں جاری بغاوت کو فروغ دیا، جس کی وجہ سے گزشتہ کئی سالوں سے خطہ تنازع کی زد میں ہے۔
مینڈیز کی حمایت کرتے ہوئے، سینیٹ کی امور خارجہ کمیٹی کے اعلیٰ رینکنگ ری پبلیکن، سینیٹر جیمز رِش نے کہا ہے کہ وہ نہیں سمجھتے کہ روس نے ابھی تک یوکرین پر حملے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاہم، انھوں نے کہا کہ روس کو متنبہ کرنے کے لیے ضروری ہوگا کہ اس کے خلاف سخت معاشی پابندیوں کا اقدام تجویز کیا جائے۔
تاہم، سب ماہرین اس بات سے متفق نہیں دکھائی دیتے کہ امریکہ کی جانب سے تعزیرات لاگو کرنے سے روس اور پوٹن کو سزا مل سکتی ہے، جیسا کہ قانون سازوں کی رائے ہے۔
کرسٹینا برزینا امریکہ کے 'جرمن مارشل فنڈ' کی ایک سینئر فیلو ہیں۔ انھوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے روس پرکسی حد تک پابندیاں عائد رہی ہیں، جب کہ اسے مزید تعزیرات کا ڈر ہے، لیکن روس نے ان کے معاشی اثرات سے بچنے کا بندوبست کر رکھا ہے۔