رسائی کے لنکس

روس یوکرین کی سرحد پر فوج بڑھانے کی وضاحت دے: سلامتی کونسل کے اجلاس میں امریکہ کا مطالبہ


میکسر ٹیکنالوجیز کی طرف سے جاری کردہ ایک تصویر میں روس کے کلموو کے علاقے میں کی ایک تنصیب میں مسلح گاڑیاں اور ٹرک دیکھے جاسکتے ہیں (اے ایف پی)
میکسر ٹیکنالوجیز کی طرف سے جاری کردہ ایک تصویر میں روس کے کلموو کے علاقے میں کی ایک تنصیب میں مسلح گاڑیاں اور ٹرک دیکھے جاسکتے ہیں (اے ایف پی)

امریکہ اور روس کا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیر کے روز آمنا سامنا ہوا جب واشنگٹن نے الزام عائد کیا کہ ماسکو اپنے پڑوسی ملک یوکرین کے خلاف بڑی سطح کے حملے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ روس ایسی کسی منصوبہ بندی کی تردید کرتا ہے۔

وائس آف امریکہ کے لیے مارگریٹ بیشیر کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر لنڈا تھامس گرینفیلڈ نے کہا کہ یورپ میں جس صورتحال کا ہم سامنا کر رہے ہیں وہ فوری توجہ کی متقاضی ہے اور بہت خطرناک ہے۔ ان کے بقول، یوکرین اور اقوام متحدہ کے ہر رکن ملک کے مفادات کو اس وقت شدید خطرات لاحق ہیں۔

انہوں نے کہا کہ روس کے ایک لاکھ سے زیادہ فوجی، جن میں لڑاکا فوجی اور خصوصی فورسز بھی شامل ہیں، یوکرین کے اندر جارحانہ کارروائی کے لیے تیار ہیں۔

’’ یہ بہت زیادہ ۔۔۔۔ بہت زیادہ ہے۔۔ میری بات غور سے سنیں، یورپ کے اندر پچھلی کئی دہائیوں میں اتنی تعداد میں فوج کو متحرک نہیں کیا گیا اور جب ہم بات کر رہے ہیں، روس مزید فوجی اور مزید اسلحہ وہاں بھجوا رہا ہے‘‘۔

امریکی سفیر نے مزید کہا کہ روس جو فوجی اور اسلحہ یوکرین کی سرحد کے نزدیک اپنے اتحادی بیلارس کی طرف بھجوا رہا ہے اس میں پانچ ہزار فوجی، اور چھوٹے فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل، خصوصی فورسز اور طیارہ شکن آلات شامل ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ ماسکو فروری کے شروع تک اس اضافی فوج کی تعداد تیس ہزار تک کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

امریکی سفیر نے مزید کہا کہ روس کی جارحیت سے یوکرین، یورپ اور بین الاقوامی نظم ( انٹرنیشنل آرڈر) کو خطرہ ہے۔

ایمبیسیڈر تھامس گرینفیلڈ نے سلامتی کونسل کے اجلاس میں صدر جو بائیڈن کی طرف سے وائٹ ہاؤس سے جاری کردہ بیان بھی پڑھ کر سنایا۔

صدر جو بائیڈن (فائل)
صدر جو بائیڈن (فائل)

صدر جو بائیڈن نے اس بیان میں کہا ہے کہ اگر روس ہمارے سیکیورٹی خدشات کو مذاکرات کے ذریعے دور کرنے میں مخلص ہے تو امریکہ اور اس کے اتحادی نیک نیتی کے ساتھ رابطے جاری رکھیں گے۔ لیکن اگر روس سفارتکاری کو چھوڑ کر یوکرین پر حملہ کرتا ہے تو اس کی ذمہ داری بھی روس کو اٹھانا پڑے گی اور اس کے بدلے میں اسے فوری اور انتہائی سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

روس کا ردعمل

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں روس کے سفیر ویسلی نیبینزیا نے پیر کے روز منعقد ہونے والے اس اجلاس کو رکوانے کی کوشش کی اور اس کے لیے 'پروسیجرل ووٹ' کا استعمال کیا، لیکن وہ بہت کم فرق کے ساتھ ضروری حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہے۔

ایمبیسیڈر نیبینزیا کا اس موقع پر کہنا تھا کہ روسی فوجوں کی اپنے علاقوں کے اندر مختلف سطحوں پر نقل و حرکت اکثر ہوتی رہتی ہے اور اس سے پہلے، ان کے بقول، ایسا ہیجان کبھی نہیں دیکھا۔

روسی سفیر نے کہا کہ امریکہ اور مغربی ممالک ایسے ردعمل ظاہر کر رہے ہیں جیسے حملہ ہو چکا ہو۔ ان کے بقول، ایسا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا جو ظاہر کرتا ہو کہ روس نے کسی حملے کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے مغربی اتحادی کشیدگی میں کمی لانے کی بات کر رہے ہیں لیکن وہ خود اس کشیدگی کو ہوا دے رہے ہیں اور ان کے نعرے، ان کے بقول، کشیدگی کو بڑھا رہے ہیں۔

امریکہ اور روس کے وزرائے خارجہ کی جینیوا میں 21 جنوری کو ہونے والی ملاقات کا منظر (اے پی)
امریکہ اور روس کے وزرائے خارجہ کی جینیوا میں 21 جنوری کو ہونے والی ملاقات کا منظر (اے پی)

روس کے سفیر نے کہا کہ ان کے ملک کے عہدیداروں نے کسی حملے کے منصوبے کو واضح انداز میں مسترد کیا ہے اور جو کوئی بھی اس کے برعکس دعویٰ کرتا ہے وہ گمراہ کر رہا ہے۔

حقوق خود مختاری

یوکرین کے سفیر نے سلامتی کونسل کے اجلاس میں کہا کہ روس کے ساتھ ماضی میں جو تجربہ رہا ہے، اس کے مطابق وہ روس کے محض اعلان کو قبول نہیں کر سکتے۔ ان کا کہنا تھا کہ روس کو چاہیے کہ وہ اپنی فوجیں سرحد کے قریب سے ہٹا لے۔

اس بحران کو جو چیز شدت دے رہی ہے وہ روس کا ایک مرکزی مطالبہ ہے کہ اس بات کی ضمانت دی جائے کہ یوکرین نیٹو اتحاد میں شریک نہیں ہو گا۔

یوکرین کے سفیر نے اس بات پر زور دیا کہ ان کا ملک اپنے دفاع کے لیے تیار ہے لیکن ماسکو کے ساتھ سفارتی چینلز کھلے رکھنے کی حمایت کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یوکرین کے صدر ولادی میر زیلنسکیف کہہ چکے ہیں کہ وہ روس کے صدر ولادی میر پوٹن کے ساتھ ملاقات کی خواہش رکھتے ہیں۔

بحران میں شدت

نیٹو نے روس کے ساتھ سرحد رکھنے والے یورپی ملکوں کے اندر فوج کی موجودگی بڑھا دی ہے لیکن نیٹو کے سیکریٹری جنرل سٹولٹنبرگ نے بی بی سی کے ساتھ گفتگو میں اتوار کے روز کہا ہے کہ نیٹو اپنی فوجوں کو یوکرین بھیجنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔

روس، جس نے سال 2014 میں یوکرین کے کرائیمیا کے علاقے پر قبضہ کر لیا تھا، کا کہنا ہے کہ وہ یوکرین پر دوبارہ حملے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ لیکن وزیرخارجہ سرگئی لاوروف نے اتوار کے روز کہا تھا کہ روس نیٹو اور 'آرگنائزیشن فار سکیورٹی کوآپریشن ان یورپ 'سے استفسار کرے گا آیا وہ سیکیورٹی سے متعلق اپنے وعدوں کی پاسداری کریں گے؟

ادھر پینٹاگان کے ترجمان جان کربی نے فاکس نیوز سنڈے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یوکرین پر کسی بھی وقت روس کا حملہ ہو سکتا ہے۔ جان کربی کے بقول روسی صدر ولادیمیر پوٹن یوکرین کی سرحد کے نزدیک مسلسل اضافہ کر رہے ہیں۔ تاہم، ترجمان جان کربی نے یوکرین پر روس کے ممکنہ حملے سے قبل روس پر پابندیوں کے امکان کو مسترد کیا اور پابندیوں کی زد میں آنے والے ان روسی مالیاتی اداروں کا نام لینے سے بھی گریز کیا۔

یوکرین کے امریکہ کے لیے سفیر اوسکانا مارکرووا نے سی بی ایس ٹیلی ویژن کے پروگرام 'فیس دا نیشن' میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ یوکرین چاہتا ہے کہ روس پر ابھی پابندیاں عائد کر دی جائیں۔

(اس خبر میں شامل کچھ مواد خبر رساں ادارے رائٹرز سے لیا گیا)

XS
SM
MD
LG