گیارہ ستمبر 2001 کے دہشت گرد حملوں میں سعودی ہاتھ کا امکان

فائل

نئی امریکی دستاویز میں کانگریس کی تفتیشی انکوائری کے شریک سربراہ کہتے ہیں کہ ’’فائل 17 میں کچھ اضافی جواب طلب سوالات ہیں، جن کے بارے میں ہم سمجھتے ہیں کہ 9/11 کمیشن، ایف بی آئی اور سی آئی اے کو اِن کے جواب معلوم کرنے چاہئیں‘‘

ایک نئی فہرست جاری کی گئی ہے جس سے یہ امکان ظاہر ہوتا ہے کہ 11ستمبر 2001ء میں نیویارک اور واشنگٹن پر ہونے والے دہشت گرد حملوں میں سعودی عرب کے ممکنہ ہاتھ ہوسکتا ہے، حالانکہ صدر براک اوباما اس بات پر غور کر رہے ہیں آیا یہ 28 صفحات پر مشتمل یہ فہرست جاری کی جائے جس میں دہشت گرد حملہ کرنے والوں کو مبینہ طور پر رقوم فراہم کرنے کا الزام سعودی عرب پر لگایا جاتا ہے، جس میں تقریباً 3000 افراد ہلاک ہوئے۔

دستاویز، جو فائل 17 کے نام سے جانی جاتی ہے، اس میں 30 سے زیادہ افراد کے نام ہیں، جن میں زیادہ تر سعودی ہیں، جنھوں نے کم از کم چند ہائی جیکروں سے بات کی، جنھوں نے تجارتی طیارے چلائے اور نیو یارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور واشنگٹن میں پینٹاگان کو نشانہ بنایا۔ انیس ہائی جیکروں میں سے 15 سعودی تھے۔

فلوریڈا سے تعلق رکھنے والے ایک سابق امریکی سینیٹر، بوب گراہم نے، جو امریکی کانگریس کی جانب سے 9/11 حملے کی تفتیشی انکوائری کے شریک سربراہ ہیں، ایسو سی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ فائل 17 میں ’’دی گئی زیادہ تر اطلاعات‘‘ اُن 28 صفحات پر مشتمل ہیں جسے اوباما ’ڈی کلاسی فائی‘ کرنے کا سوچ رہے ہیں۔

گراہم سمجھتے ہیں کہ حملوں سے پہلے ہائی جیکروں کے پاس امریکہ میں حمایت کا وسیع تر سعودی نظام موجود تھا۔ اُن کا کہنا ہے کہ حملے کے بارے میں اِس تفصیلی سرکاری رپورٹ کے خفیہ راز کے یہ 28 صفحات ’’اہم مالی وسائل کے اعتبار سے سعودی عرب پر انتہائی ٹھوس انگلیاں اٹھتی ہیں‘‘۔

گراہم کے بقول، ’’فائل 17 میں کچھ اضافی جواب طلب سوالات ہیں، جن کے بارے میں ہم سمجھتے ہیں کہ 9/11 کمیشن، ایف بی آئی اور سی آئی اے کو اِن کے جواب معلوم کرنے چاہئیں‘‘۔

فائل 17 کا نام پہلی بار’ 28پیجز ڈاٹ آرگ‘ نامی ایڈووکیسی گروپ نے لیا تھا، جس میں اس خفیہ دستاویز کو جاری کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اس میں ہائی جیکروں کے ساتھ سعودی رابطوں کی فہرست موجود ہے، جن میں سے متعدد کیلی فورنیا کی مغربی امریکی ریاست میں مقیم تھے۔ اس میں سے کافی معلومات ایسی ہے جو برسوں سے عام ہے۔ تاہم، 11/9 کے بھید سے سعودی عرب کے ممکنہ ملوث ہونے کے بارے میں امریکہ میں خاصی دلچسپی پائی جاتی ہے۔

سعودی حکومت نے بارہا کہا ہے کہ اِن الزامات میں کوئی صداقت نہیں۔ سعودی عرب کے وزیر خارجہ، عبدالاجبیر نے واشنگٹن میں اخباری نمائندوں کو بتایا کہ ’’اِن میں کوئی سچائی نہیں‘‘۔

نائن الیون کمیشن کی حتمی رپورٹ اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ اس بات کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے کہ ادارے کے طور پر سعودی حکومت یا سعودی حکام نے ذاتی طور پر 11/9کے حملوں کے لیے القاعدہ کے دہشت گرد نیٹ ورک کو رقوم فراہم نہیں کیں‘‘۔


تاہم، رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ نتیجہ اس امکان کو خارج نہیں کرتا کہ چندہ دینے والے اداروں نے، جو سعودی حکومت کی زیر سرپرستی کام کرتے ہیں، القاعدہ کو رقوم فراہم کیں۔