کرونا وائرس کی ویکسین بنانے کی کوششوں میں مصروف اداروں سے امریکی انتظامیہ کے معاہدے کی وجہ سے دوا کی قیمت طے ہوگئی ہے اور یہ امکان پیدا ہوا ہے کہ کوئی کمپنی ناجائز منافع نہیں کما سکے گی۔
امریکی انتظامیہ نے بدھ کو اعلان کیا تھا کہ وہ فائزر اور بایو این ٹیک کو ایک ارب 95 کروڑ ڈالر دے گی جس کے عوض وہ 5 کروڑ امریکیوں کو اپنی ویکسین فراہم کریں گی۔ اس طرح ایک شخص کی ویکسینیشن کا خرچہ 39 ڈالر آئے گا جو عام فلو کی ویکسین جتنا ہے۔ اس طرح دواساز ادارے مناسب منافع کماسکیں گے۔
فائزر اور بایو این ٹیک کی ممکنہ ویکسین کی تیاری اس ماہ کے آخر میں شروع کی جارہی ہے۔ امریکی انتظامیہ سے معاہدے کرنے والی دوسری کمپنیوں کے برعکس فائزر اور بایو این ٹیک اس وقت تک رقم وصول نہیں کریں گی جب تک ان کی ویکسین محفوظ اور موثر ثابت نہیں ہوجاتی۔
امریکہ اور کئی دوسرے ممالک کی حکومتوں نے ویکسین بنانے کی کوششوں میں مصروف کمپنیوں سے معاہدے کیے ہیں جن میں بعض نے ویکسین کی خوراکیں فراہم کرنے کی ضمانت دی ہے۔ لیکن یہ پہلا معاہدہ ہے جس میں حتمی دوا کی قیمت طے کی گئی ہے۔
امریکی انتظامیہ نے معاہدے کے مطابق رضامندی ظاہر کی ہے کہ وہ فائزر اور بایو این ٹیک کی ویکسین کی 10 کروڑ خوراکیں خریدے گی۔ ہر خوراک کی قیمت ساڑھے 19 ڈالر ہوگی اور ہر شخص کو دو خوراکوں کی ضرورت ہوگی۔
ماہرین صحت کا خیال ہے کہ پوری دنیا میں جانی اور معاشی نقصانات کا سبب بننے والی وبا کا زور توڑنے کے لیے موثر ویکسینز ناگزیر ہیں۔ لیکن اربوں کی آبادی کے لیے ان کی دستیابی یقینی بنانا آسان نہیں جبکہ دواساز اداروں پر دباؤ ہے کہ وہ صحت کے عالمی بحران میں بڑا منافع کمانے سے گریز کریں۔
ایس وی بی لیرنک کے تجزیہ کار جیفری پورجس کہتے ہیں کہ 40 ڈالر فی کس میں بھی ویکسین بنانے والے منافع کمائیں گے۔ بعض علاقوں میں یہ منافع 60 سے 80 فیصد تک ہوگا۔ لیکن اس میں ویکسین کی تحقیق اور تیاری کے اخراجات شامل نہیں۔ فائزر کا کہنا ہے کہ اس پر ایک ارب ڈالر آرہی ہے۔
اتنے منافع کے امکان کے باوجود ماہرین سمجھتے ہیں کہ کرونا وائرس کی ویکسین کی قیمت دوسری عام ویکسینز کے برابر ہے اور معیشت کھولنے کی منتظر حکومتوں کے لیے یہ خسارے کا سودا نہیں۔
پوجس نے کہا کہ امریکی انتظامیہ اور فائزر بایو این ٹیک معاہدہ کرونا وائرس ویکسین کے لیے معیار بن جائے گا اور ممکن ہے کہ ویکسین بنانے والے تمام ادارے دنیا بھر میں یکساں قیمت پر متفق ہوجائیں۔
فائزر، موڈرنا اور مرک جیسی کمپنیاں کہہ چکی ہیں کہ وہ اپنی ویکسینز سے منافع کمانے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ حکومتیں اور فلاحی تنظیمیں اس دوڑ میں لگی ہیں کہ ممکنہ ویکسینز کے جلد حصول کو یقینی بنالیں، حالانکہ اس بات کی ضمانت نہیں ہے کہ کوئی ویکسین امیدوں پر پورا اترے گی۔
گزشتہ ہفتے جانسن اینڈ جانسن نے رائٹرز کو بتایا تھا کہ ویکسین کی فراہمی کے لیے اس کی یورپی یونین، جاپان اور بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن کے ساتھ بات چیت جاری ہے۔ اگرچہ جانسن اینڈ جانسن نے ابھی اپنی ویکسین کی قیمت طے نہیں کی لیکن وہ اعلان کرچکی ہے کہ کرونا وائرس کی ویکسین سے نفع نہیں کمائے گی۔
آکسفرڈ یونیورسٹی کے ساتھ ویکسین کی آزمائش میں مصروف آسٹرازینیکا نے ایک ارب 20 کروڑ ڈالر پیشگی دینے کے عوض امریکہ کو 30 کروڑ خوراکیں دینے کا وعدہ کیا ہے۔ اگرچہ اس طرح فی خوراک قیمت 4 ڈالر بنتی ہے، جو فائزر اور بایو این ٹیک سے کہیں کم ہے لیکن اس معاہدے میں فرق یہ ہے کہ آسٹرازینیکا کچھ رقم کو تحقیق کے لیے استعمال کرسکتی ہے، چاہے ویکسین آخر میں ناکام ہی کیوں نہ ہوجائے۔