معاشیات کے ماہرین کے اندازوں کے مطابق، شٹ ڈاؤن کے باعث امریکی اقتصادیات کو ہر روز 30 کروڑ ڈالر کا نقصان پہنچ رہا ہے
واشنگٹن —
امریکہ کے شراکتی اداروں نے کاروبارِ حکومت کی بندش پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اِسے امریکی معیشت کے لیے نقصان دہ قرار دیا ہے۔
اس ہفتے، صدر براک اوباما اور کانگریس کے قائدین نے 11 روز سے جاری شٹ ڈاؤن کو ختم کرنے اور ملک کی 16.7 ٹرلین ڈالر کی قرضے کی حد بڑھانے کے طریقوں کے بارے میں بات کرنا شروع کی ہے، تاکہ امریکہ اپنی مالی ادائگیوں کے معاملے میں نادہند نہ ہو۔
تاہم، شراکتی اداروں سے واسطہ رکھنے والے امریکی راہنماؤں نے پہلے ہی سرمایہ کاروں سے یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ اُن کی کمپنیوں کی مالی کارکردگی اور قومی معیشت پر صورتِ حال کے برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
’فیملی ڈالر اسٹورز‘ نامی سستی اشیا فروخت کرنے والے ایک کاروباری ادارے کے ایک منتظم اعلیٰ، ہاورڈ لوائین نے کہا ہے کہ، ’واشنگٹن میں جاری غیر یقینی صورتِ حال سے ہمارے خریداروں کی آمدن پر دباؤ جاری رہے گا‘، جب کہ دیگر شراکتی اداروں کے منتظمیں نے کہا ہے کہ اخراجاتی پایسیوں کے بارے میں واشنگٹن میں جاری تعطل کی صورتِ حال کے باعث صارفین کے اعتماد کو ٹھیس پہنچے گی۔
’اسٹینڈرڈ اینڈ پوئرز کریڈٹ سروس‘ کے معیشت کے شعبے کی سربراہ، بیتھ این بوینو نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ جب سے تعطل کی صورتِ حال جاری ہے، بلکہ اس سال کے آخری تین ماہ کے دوران، ملکی معیشت میں ہر ہفتے ایک اعشاریے کے تین دہائی کے مساوی کمی واقع ہو رہی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ حقائق یہ ہیں کہ معیشت سے متعلق حکومتی محکموں کے متعدد کلیدی حصے بند پڑے ہیں، یا خراب حالت میں ہیں، جن باتوں کے وسیع تر اثرات مرتب ہو رہے ہیں، مثلاً چھوٹے کاروباری حضرات اور زمینداروں کو اپنے دھندے کو وسعت دینے کے لیے درکار قرضوں کی منظوری میں تاخیر واقع ہو رہی ہے، جو مثبت بات نہیں۔
کچھ معاشیات دانوں کے اندازوں کے مطابق، شٹ ڈاؤن کے باعث امریکی اقتصادیات کو ہر روز 30 کروڑ ڈالر کا نقصان پہنچ رہا ہے۔
بوینو کا کہنا ہےکہ کاروبارِ حکومت کی جزوی بندش کے خصوصی طور پر مقامی برادریوں پر برے اثرات پڑ رہے ہیں، جہاں حکومتی کارکنوں کی بڑی آبادیاں ہیں، جو محنتانے کے بغیر فرلو پر ہیں، یا پھر اُنھیں لازم قرار دیا گیا ہے، لیکن اُنھیں حکومت نے کام کرنے کے لیے کہا تو ہے، لیکن اُنھیں شٹ ڈاؤن ختم ہونے کے بعد ہی تنخواہ کی ادائگی ہوگی۔
اُنھوں نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ عام امریکی آبادی پر اِس صورتِ حال کا بظاہر کوئی اثر دیکھائی نہ دے، تاہم، اگر شٹ ڈاؤن جاری رہتا ہے تو بہت جلد اِس کے واضح اثرات نظر آنے لگیں گے۔
اس ہفتے، صدر براک اوباما اور کانگریس کے قائدین نے 11 روز سے جاری شٹ ڈاؤن کو ختم کرنے اور ملک کی 16.7 ٹرلین ڈالر کی قرضے کی حد بڑھانے کے طریقوں کے بارے میں بات کرنا شروع کی ہے، تاکہ امریکہ اپنی مالی ادائگیوں کے معاملے میں نادہند نہ ہو۔
تاہم، شراکتی اداروں سے واسطہ رکھنے والے امریکی راہنماؤں نے پہلے ہی سرمایہ کاروں سے یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ اُن کی کمپنیوں کی مالی کارکردگی اور قومی معیشت پر صورتِ حال کے برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
’فیملی ڈالر اسٹورز‘ نامی سستی اشیا فروخت کرنے والے ایک کاروباری ادارے کے ایک منتظم اعلیٰ، ہاورڈ لوائین نے کہا ہے کہ، ’واشنگٹن میں جاری غیر یقینی صورتِ حال سے ہمارے خریداروں کی آمدن پر دباؤ جاری رہے گا‘، جب کہ دیگر شراکتی اداروں کے منتظمیں نے کہا ہے کہ اخراجاتی پایسیوں کے بارے میں واشنگٹن میں جاری تعطل کی صورتِ حال کے باعث صارفین کے اعتماد کو ٹھیس پہنچے گی۔
’اسٹینڈرڈ اینڈ پوئرز کریڈٹ سروس‘ کے معیشت کے شعبے کی سربراہ، بیتھ این بوینو نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ جب سے تعطل کی صورتِ حال جاری ہے، بلکہ اس سال کے آخری تین ماہ کے دوران، ملکی معیشت میں ہر ہفتے ایک اعشاریے کے تین دہائی کے مساوی کمی واقع ہو رہی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ حقائق یہ ہیں کہ معیشت سے متعلق حکومتی محکموں کے متعدد کلیدی حصے بند پڑے ہیں، یا خراب حالت میں ہیں، جن باتوں کے وسیع تر اثرات مرتب ہو رہے ہیں، مثلاً چھوٹے کاروباری حضرات اور زمینداروں کو اپنے دھندے کو وسعت دینے کے لیے درکار قرضوں کی منظوری میں تاخیر واقع ہو رہی ہے، جو مثبت بات نہیں۔
کچھ معاشیات دانوں کے اندازوں کے مطابق، شٹ ڈاؤن کے باعث امریکی اقتصادیات کو ہر روز 30 کروڑ ڈالر کا نقصان پہنچ رہا ہے۔
بوینو کا کہنا ہےکہ کاروبارِ حکومت کی جزوی بندش کے خصوصی طور پر مقامی برادریوں پر برے اثرات پڑ رہے ہیں، جہاں حکومتی کارکنوں کی بڑی آبادیاں ہیں، جو محنتانے کے بغیر فرلو پر ہیں، یا پھر اُنھیں لازم قرار دیا گیا ہے، لیکن اُنھیں حکومت نے کام کرنے کے لیے کہا تو ہے، لیکن اُنھیں شٹ ڈاؤن ختم ہونے کے بعد ہی تنخواہ کی ادائگی ہوگی۔
اُنھوں نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ عام امریکی آبادی پر اِس صورتِ حال کا بظاہر کوئی اثر دیکھائی نہ دے، تاہم، اگر شٹ ڈاؤن جاری رہتا ہے تو بہت جلد اِس کے واضح اثرات نظر آنے لگیں گے۔