عراق افغان جنگ کے سابق امریکی فوجیوں کی بحالی

عراق افغان جنگ کے سابق امریکی فوجیوں کی بحالی

عراق سے فوجیوں کی واپسی ویتنام سے فوجیوں کی واپسی سے مختلف کیوں ہے ؟

امریکہ کی سڑکوں پر اس وقت 70 ہزار سے زائد ایسے افراد موجود ہیں جو کسی زمانے میں امریکی فوج کا حصہ تھے ۔عراق اور افغانستان میں لڑی جانے والی جنگوں میں ایک اندازے کے مطابق دس سے پندرہ لاکھ سے زائد امریکی فوجیوں نے خدمات انجام دی ہیں ۔ان تمام فوجیوں کو ان کے پاؤں پر کھڑا کرناویتنام جنگ کے بعد امریکی معیشت اور حکومت کا پہلا اتنا بڑا امتحان ہے ۔

رسل سنائیڈر ، والنٹئیرز آف امریکہ نامی تنظیم کی مقامی شاخ کے سربراہ ہیں، ان کا کہنا ہے کہ سابق فوجیوں کی بحالی اور بہبود کے لئے امریکہ میں نہ اداروں کی کمی ہے نہ فنڈز کی ، کمی ہے تو ان اداروں کے درمیان مناسب ہم آہنگی کی ۔

ان کا کہنا ہے کہ ان کی تنظیم صرف واشنگٹن ، میری لینڈ اور ورجینیا کی تین امریکی ریاستوں میں چار سو سے زائد سابق فوجیوں کی مدد کر رہی ہے ۔ جبکہ 2010ء کے دوران ان سے رہائش کے لئے مدد طلب کرنے والے سابق فوجیوں کی تعداد سات ہزار سات سو تھی ۔

کیا عراق سے فوجیوں کی واپسی ویتنام سے فوجیوں کی واپسی سے مختلف ہے ؟ والنٹئیرز آف امریکہ کی سینئیر وائس پریذیڈنٹ باربرا بینس زنسکی کا کہناہے کہ میرے خیال میں ویت نام جنگ میں امریکی عوام نے پہلی بار جنگ کے خوفناک مناظر اپنی ٹی وی سکرین پر دیکھے تھے ۔ لوگ جنگ کی ہولناکی بھولنا چاہتے تھے ، مگر جو فوجی واپس آئے ۔ وہ انہیں بھی بھول گئے ۔لیکن آج صورتحال مختلف ہے ۔

باربرا کہتی ہیں کہ جنگ سے واپس آنے والے کو بے گھر ہو کر سڑک پر آنے میں کم از کم چھ سے سات سال لگتے ہیں۔اور جنگ جیسے حالات کا سامنا کرنے والوں کو صحت مند زندگی کی طرف واپس لانے کے لئے بعض اوقات کچھ زیادہ نہیں چاہئے ہوتا ۔

امریکی تاریخ میں یہ پہلا موقعہ ہے کہ عراق اور افغانستان سے واپس آنے والوں میں خواتین فوجیوں کی ایک بڑی تعداد بھی شامل ہے ، باربرا کہتی ہیں کہ امریکہ کو اس بار ایک نئی ایڈجسٹمنٹ سے گزرنا ہے ۔

امریکہ میں سرکاری ملازمتوں میں سابق فوجیوں کو ہمیشہ ترجیح دی جاتی ہے ۔ اور باربرا کو یقین ہے کہ امریکہ کے لئے جان ہتھیلی پر رکھنےوالے ان نوجوانوں کی صلاحیتیں ضائع نہیں ہونے دی جائیں گی ۔

امریکہ میں بے روزگاری کا تناسب اپنی بلند ترین سطح پر ہے ،امریکی معیشت تعلیم یافتہ صحت مند افراد کو ملازمتیں مہیا کرنے کے چیلنج سے نمٹ رہی ہے ۔ ایسے میں عراق اور افغانستان سے آنے والے ایک سے ڈیڑھ ملین فوجیوں کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے میں کس کو کتنی دلچسپی ہے ؟ یہ واضح ہونے کے لئے شاید کچھ زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا ۔