امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے کابل کے دورے میں افغان حکومت کے نمائندوں سے افغان تنازع کے حل سے متعلق کوششوں پر تبادلہ خیال کیا ہے۔
خلیل زاد نے اپنا افغانستان کا یہ دورہ امریکہ اور طالبان کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں متوقع بات چیت سے پہلے کیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق یہ بات چیت دوحہ میں اپریل کے وسط میں شروع ہونے کا امکان ہے۔
تاہم امریکہ اور طالبان کی طرف سے اس بارے میں تاحال کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
خلیل زاد اور افغان طالبان کے نمائندوں کے درمیان گزشتہ ماہ کی بات چیت کے بعد فریقین نے افغان تنازع کے حل کی جانب قابل ذکر پیش رفت کا دعویٰ کیا تھا۔
دوسری طرف افغان حکومت کے معاون ترجمان فریدون خزون نے ایک بیان میں اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ خلیل زاد کے دورے سے کابل حکومت اور طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات کی راہ ہموار ہو سکے گی۔
امریکہ کے نمائندہ خصوصی خلیل زاد طالبان مذاکرات کاروں کے ساتھ متعدد بار ملاقات کر چکے ہیں لیکن ان مذاکرات میں کابل حکومت کا کوئی نمائندہ شریک نہیں تھا جس پر صدر اشرف غنی کی حکومت تحفظات کا اظہار کر چکی ہے۔
اگرچہ امریکہ اور کئی دیگر ملک طالبان پر کابل حکومت سے براہ راست بات چیت کے لیے زور دے رہے ہیں تاہم طالبان ابھی تک کابل حکومت سے براہ راست بات چیت کے لئے تیار نہیں ہیں۔
تاہم بعض مبصرین کا خیال ہے کہ خلیل زاد بظاہر افغان امن عمل کے بارے میں کابل حکومت کے تحفظات کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ افغانوں کے درمیان بات چیت کا عمل شروع کرنے کے لیے بھی کوشاں ہیں۔
خلیل زاد نے پیر کو افغان حکومت کے عہدیداروں سے ملاقات کے بعد ایک ٹوئٹ میں کہا کہ افغانوں کے مابین بات چیت کی ضرورت پر انہوں نے افغان عہدیداروں کے ساتھ تبادلہ خیال کیا ہے۔
خلیل زاد نے ٹوئٹر پر کہا کہ انہوں نے افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ اور افغانستان کے وزیر خارجہ صالح ربانی سے بڑی مفید بات چیت کی ہے۔
خلیل زاد نے مزید کہا، ‘‘ہم نے اس معاملے پر تبادلہ خیال کیا کہ بین الاقوامی برادری کس طرح افغانوں کی قیادت اور افغانوں کی سرپرستی میں افغان امن عمل کی حمایت کر سکتی ہے۔
دوسری طرف یہ امکان موجود ہے کہ افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے خلیل زاد خطے کے اپنے تازہ دورے میں رواں ہفتے پاکستان جائیں گے۔
خلیل زاد یہ دورہ ایک ایسے وقت کریں گے جب حال ہی میں پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کے افغانستان میں عبوری حکومت سے متعلق دیے گئے بیان کی وجہ سے سفارتی تنازع پید ہو گیا تھا۔ افغان حکومت نے عمران خان کے بیان کو افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا تھا جبکہ خلیل زاد نے عمران خان کے بیان کو افغان امن عمل کے لئے تعمیری کرادر کے برعکس کہا تھا۔
تاہم پاکستان کے دفتر خارجہ کے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ وزیر اعظم کا بیان سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا تھا اور اسے افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے طور پر نہیں لیا جانا چاہیے۔
تاہم بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکہ افغان امن عمل کے لیے پاکستان کے کردار کو اہم سمجھتا ہے اور خلیل زاد رواں ماہ طالبان کے ساتھ ہونے والی بات چیت کے آئندہ دور سے پہلے انہیں کابل حکومت سے براہ راست بات چیت پر آمادہ کرنے کے لیے پاکستان سمیت کئی دیگر ملکوں کا تعاون حاصل کرنے کے خواہاں ہیں۔
افغان امور کے ماہر اور سینیئر صحافی طاہر خان نے منگل کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’طالبان اور امریکہ کے درمیان مارچ میں ہونے والے مذاکرات میں دونوں فریقوں نے پیش رفت کا دعوٰی کیا تھا، اس لیے یہ امکان موجود ہے کہ جن چیزوں پر پیش رفت ہو چکی ہے ان پر دونوں فریقوں کے درمیان کوئی باضابطہ سمجوتہ طے پا سکتا ہے‘‘۔
یاد رہے کہ امریکہ اور طالبان نے گزشتہ ماہ قطر میں بات چیت کے اپنے آخری دور کے بعد یہ بتایا تھا کہ دونوں فریقوں کے درمیان افغان سرزمین کو پھر سے دہشت گردی کا مرکز بننے سے روکنے کے بدلے افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا سے متعلق سمجھوتے کے ’’مسودے‘‘ پر اتفاق رائے ہو گیا ہے۔
تاہم تجزیہ کار طاہر خان کا کہنا ہےکہ افغان تنازع کے حل کے کسی حتمی سمجھوتے کے لیے طالبان اور کابل حکومت کے درمیان بات چیت ضروری ہے۔
طاہر خان کے بقول اب کابل حکومت سے براہ راست بات چیت کے لیے طالبان کو نہ صرف پاکستان بلکہ بین الاقوامی برادری کے دباؤ کا بھی سامنا ہے۔
امریکی عہدیدار تواتر کے ساتھ پاکستان پر زور دیتے آ رہے ہیں کہ طالبان کو کابل حکومت سے بات چیت پر آمادہ کرنے کے لیے اسلام آباد اپنا کردار ادا کرے اور طاہر خان کے بقول خلیل زاد کے رواں ہفتے کے متوقع دورے میں بھی امریکی سفارت کار اس معاملے پر پاکستانی عہدیداروں سے بات چیت کریں گے۔