امریکہ: سپریم کورٹ نے ٹرمپ کے ٹیکس گوشواروں تک رسائی ممکن بنادی

امریکہ کی سپریم کورٹ نے ایوانِ نمائندگان کی کمیٹی کی سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹیکس گوشواروں کے اجرا میں حائل رکاوٹ دور کردی ہے۔ اس فیصلے کو ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق صدر کی شکست کہا جا رہا ہے جب کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے ڈیموکریٹ کی سربراہی میں پینل کی ٹیکس تفصیلات کے اجرا کی درخواست کے محرکات کو سیاسی قرار دیا تھا۔

سپریم کورٹ کے ججز نے ماتحت عدالت کے فیصلے کو روکنے کی ٹرمپ کی 31اکتوبر کی ہنگامی درخواست کو مسترد کردیا ہے۔ اس فیصلے میں پینل کے قانون سازی کے کام کے جائز حصے کے طور پر ٹرمپ کے ٹیکس ریکارڈ کے لیے ویز اینڈ مینز کمیٹی کی درخواست کو برقرار رکھا تھا۔ کسی جج نے فیصلے سے اختلاف ظاہر نہیں کیا۔

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق اس کمیٹی نے 2015 سے 2020 تک ٹرمپ کے چھ سال کا ٹیکس ریکارڈ طلب کیا تھا۔ اس عدالتی حکم کے بعد گوشواروں پر مزید کارروائی کے لیے اس کمیٹی کے پاس بہت کم وقت ہوگا کیوں کہ آئندہ برس کے آغاز میں ایوان نمائندگان کے نئے ارکان ذمے داریاں سنبھال لیں گے۔ امریکہ میں 8 نومبر کو ہونے والے مڈٹرم الیکشن میں ری پبلکن پارٹی معمولی اکثریت سے ایوان نمائندگان میں برتری حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔

امریکہ کے ایوانِ نمائندگان کی ٹیکس امور کی نگران ’ویز اینڈ مینز‘ کمیٹی کے چیئرمین رچرڈ نیل کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کا احکامات سے امورِ مملکت پر کانگریس کی نگرانی کے اصول کو تقویت ملی ہے۔

انہوں نے ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ معاملہ سیاست سے بالاتر ہے اور کمیٹی اب اس کی جانچ کرے گی جس کی ہم گزشتہ ساڑھے تین سال سے کوشش کر رہے ہیں۔

دوسری جانب ٹرمپ کے ترجمان نے اس معاملے پر فوری کوئی ردِعمل نہیں دیا ہے۔

SEE ALSO: امریکہ کے وسط مدتی انتخابات: ایوانِ نمائندگان میں ری پبلکنز کو اکثریت حاصل

واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ گزشتہ چار دہائیوں میں پہلے امریکی صدر تھے جنہوں نے اپنے ٹیکس گوشوارے ظاہر نہیں کیے تھے اور انہوں نے اپنی دولت اور اپنی ریئل اسٹیٹ کمپنی ٹرمپ آرگنائزیشن کی تفصیلات خفیہ رکھنے کی کوشش کی تھی۔

ویز اینڈ مینز کمیٹی نے سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ ٹرمپ کے الزامات کو تسلیم کرنے سے کانگریس کو سابق صدر سے متعلق کسی بھی تحقیقات مکمل کرنے سے صرف سیاسی محرکات کی بنیاد پر روکنے کی راہ ہموار ہوگی۔

پینل نے اپنی درخواست میں ایک وفاقی قانون کا حوالہ دیا جو اس کے چیئرمین کو اختیار دیتا ہے کہ وہ انٹرنل ریونیو سروس (آئی آر ایس) سے کسی بھی شخص کے ٹیکس گوشواروں کے حصول کی درخواست کرسکتا ہے۔

ڈیموکریٹک پارٹی کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ انہیں ٹرمپ کے ٹیکس گوشوارے دیکھنے کی ضرورت ہے کہ آیا آئی آر ایس صدارتی گوشواروں کو صحیح طریقے سے آڈٹ کر رہا ہے اور کیااس معاملے میں نئے قانون سازی کی ضرورت ہے۔

کمیٹی نے ججز کو فراہم کی گئی دستاویزات میں بتایا ہے کہ آئی آر سی کی پالیسی کسی ایسے صدر کے بارے میں خاموش ہے جس کے صدر ٹرمپ کی طرح سینکڑوں کاروبار ہوں، اس کی جانب سے انتہائی پیچیدہ دستاویزات فراہم کی گئی ہوں اور جس نے ٹیکس اور مبینہ طور پر ہونے والے آڈٹس سے بچنے کی حکمتِ عملی کا بے دریغ استعمال کیا ہو۔

ادھر ٹرمپ کے وکلا کا کہنا ہے کہ کمیٹی کا اصل مقصد ٹرمپ کے ٹیکس گوشواروں کو عوامی سطح پرسامنے لانا ہے اور ٹرمپ سے متعلق سیاسی طور پر نقصان دہ معلومات کا پتا لگانا ہے۔

امریکہ کے ڈسٹرکٹ جج ٹریور میک فیڈن نے، جنہیں ٹرمپ نے ہی مقرر کیا تھا، دسمبر 2021 میں کانگریس کا ساتھ دیا تھا اور کمیٹی کی درخواست کو چیلنج کیا تھا، جس میں یہ معلوم ہوا تھا کہ کمیٹی سابق صدر کے ٹیکس گوشواروں پر وسیع اختیار رکھتی ہے۔

SEE ALSO: ڈونلڈ ٹرمپ نے 2024 کا صدارتی الیکشن لڑنے کا اعلان کر دیا

بعد ازاں یو ایس کورٹ آف اپیلز فار ڈسٹرکٹ آف کولمبیا سرکٹ نے اگست میں بھی ٹرمپ کے خلاف فیصلہ سنایا تھا اور اکتوبر میں درخواست کی دوبارہ سماعت سے انکار کردیا تھا۔

البتہ منگل کے حکم نے چیف جسٹس جان رابرٹس کے یکم نومبر کے اس فیصلے کو ختم کردیا جس نے اس تنازع کو مؤثر طریقے سے روکا تھا اور پینل کو ٹرمپ کے گوشواروں کے حصول سے روک دیا تھا۔

اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے لی گئی ہیں۔