لڑائی ختم کرنے کے معاملے پر پیش رفت ہوئی ہے: امریکہ، طالبان

فائل

امریکہ اور طالبان نے منگل کے روز افغان سرزمین کو پھر سے دہشت گردی کا مرکز بننے سے روکنے کے بدلے افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا سے متعلق سمجھوتے کا ’’مسودہ طے‘‘ کیا ہے۔

امریکی نمائندہٴ خصوصی برائے افغان امن، زلمے خلیل زاد نے اس بات کا اعلان قطر میں طالبان کے ساتھ 16 روز سے جاری طویل بات چیت کے خاتمے پر اپنی ٹویٹس میں کیا۔

افغان مفاہمت کے امریکی ایلچی نے کہا ہے کہ حالانکہ بات چیت میں’’اونچ نیچ رہی ہے، ہم نے چیزوں کو درست سمت میں رکھا اور اصل پیش رفت حاصل کی‘‘۔

گزشتہ سال کے موسم خزاں سے لے کر اب تک دونوں فریق نے مذاکرات کا پانچواں دور مکمل کیا۔ یہ دور 25 فروری کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں شروع ہوا جس ملک نے بات چیت کی میزبانی کی۔

اُنھوں نے وضاحت کی ہے کہ ’’جب انخلا کے نظام الاوقات اور دہشت گردی کے خاتمے کے مؤثر اقدامات سے متعلق سمجھوتے کا مسودہ طے کیا جائے گا، طالبان اور دیگر افغان، جن میں حکومت بھی شامل ہے، سیاسی حل اور ایک مربوط جنگ بندی پر بین الافغان مذاکرات کا آغاز کریں گے‘‘۔

طالبان ترجمان، ذبیح اللہ مجاہد نے ایک علیحدہ بیان میں اس بات کی جانب بھی توجہ دلائی ہے کہ فریق نے دو معاملوں پر پیش رفت حاصل کی ہے۔

مجاہد نے اس بات پر زور دیا کہ بات چیت میں بنیادی طور پر توجہ اس بات پر مرکوز رہی کہ ’’افغانستان سے کب اور کیسے تمام غیر ملکی فوجیں واپس ہوں گی، اس کا طریقہٴ کار کیا ہوگا۔ ساتھ ہی، افغانستان کے مستقبل کے بارے میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی کس طرح یقینی دہانی کرائی جائے گی؟‘‘۔

اُنھوں نے کہا کہ طالبان اور امریکی مذاکرات کار کسی متفقہ تاریخ پر بہت جلد پھر ملیں گے، تاکہ پیش رفت کو مزید آگے بڑھایا جائے۔

مجاہد نے کہا کہ ’’اب دونوں فریق حاصل کردہ پیش رفت پر گفت و شنید کریں گے، اپنی متعلقہ قیادت کو بتائیں گے اور اگلی ملاقات کی تیاری کریں گے‘‘۔
خلیل زاد نے کہا کہ مزید گفتگو کے لیے وہ واشنگٹن واپس جا رہے ہیں؛ لیکن اُنھوں نے اس بات کو واضح کیا کہ ’’جب تک تمام معاملوں پر اتفاق نہیں ہو جاتا، حتمی سمجھوتا نہیں ہوگا‘‘۔
افغان صدر اشرف غنی کی حکومت نے فوری طور پر امن عمل میں پیش رفت کے حصول کے لیے امریکی کوششوں کا خیر مقدم کیا ہے۔

زلمے خلیل زاد نے منگل کے روز کہا ہے کہ امریکہ اور طالبان نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں 16 روز تک مذاکرات جاری رکھے، جن کے نتیجے میں مشکل معاملوں پر کوئی واضح پیش رفت حاصل نہی ہو سکی جس سے افغانستان کی 17 برس سے جاری لڑائی کا حل نکالا جا سکے۔

تاہم، ایک ٹوئیٹ میں، خلیل زاد نے کہا ہے کہ دونوں فریق سمجھوتے کے ایک مسودہ تک پہنچے ہیں۔ ان معاملات کا تعلق امریکی فوجوں کے افغانستان سے بالآخر انخلا، جب کہ باغیوں کی جانب سے القاعدہ اور دیگر دہشت گرد گروہوں سے تمام مراسم توڑنے کے عزم سے ہے۔

اپنی ٹوئیٹس میں خلیل زاد نے کہا ہے کہ ’’امن کے لیے چار معاملوں پر سمجھوتا لازم ہے: دہشت گردی کے معاملے پر یقین دہانی، فوجوں کا انخلا، بین الافغان مکالمہ اور مربوط جنگ بندی‘‘۔

ایک اور ٹوئیٹ میں خلیل زاد نے کہا کہ جنوری کی بات چیت میں ہم ’’اصولی طور پر‘‘ چار معاملوں پر رضامند ہوئے تھے۔ اب ہم پہلے دو معاملوں پر ’’مسودہ کی حد تک متفق ہوئے ہیں‘‘۔

اپنی تیسری ٹوئیٹ میں، اُنھوں نے کہا کہ ’’دوحہ میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کا چوتھا دور مکمل کیا۔ امن کے لیے حالات بہتر ہوئے ہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ تمام فریق لڑائی ختم کرنا چاہتے ہیں۔ باجود اونچ نیچ کے، ہم نے معاملات کو درست سمت پر رکھا ہے، جب کہ ہم نے اصل پیش رفت ضرور حاصل کی ہے‘‘۔

اپنی چوتھی ٹوئیٹ میں، خلیل زاد نے کہاہے کہ ’’افغانستان کی کامیابی کا انحصار خواتین کی مکمل شرکت پر ہے۔ کسی بھی امن سمجھوتے میں خواتین کے حقوق کا تحفظ لازم ہے، اور یہ بات بین الافغان بات چیت کا لازمی جُزو ہونا چاہیئے‘‘۔

ادھر، طالبان کے ترجمان نے اپنے بیان میں بات چیت کے تازہ ترین اور آخری دور کے بارے میں کہا ہے کہ 25 فروری 2019ء کو شروع ہونے والے مذاکرات آج 12 مارچ، 2019ء کو ختم ہوئے۔

ترجمان کے مطابق،’’بات چیت کے اس دور میں دو معاملوں پر بڑی دیر تک اور تفصیلی گفتگو ہوئی، جن دو معاملات پر جنوری کے مذاکرات میں اتفاق رائے ہوا تھا۔ یہ دو معاملے افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلا، جب کہ دوسرے میں افغان سرزمین سے کسی دوسرے کو نقصان پہنچانے سے احتراز برتنے سے تھا۔ غیر ملکی افواج افغانستان سے کیسے اور کب واپس ہوں گی، اور اس کا طریقہٴ کار کیا ہوگا؟ ساتھ ہی، امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو افغانستان کے مستقبل کے بارے میں کس طرح یقین دہانی کرائی جائے؟‘‘۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’دونوں معاملوں پر پیش رفت حاصل ہوئی ہے۔ اب دونوں فریق حاصل کردہ پیش رفت پر مزید گفتگو کریں گے، اپنی متعلقہ قیادتوں کو بریف کریں گے اور ملاقات کے اگلے دور کے لیے تیاری کریں گے؛ جس کی تاریخ دونوں مذاکراتی ٹیمیں طے کریں گی‘‘۔

طالبان کےبیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’یہ بات کی جانی چاہیئے کہ کابل انتظامیہ کے ساتھ جنگ بندی اور مذاکرات کے بارے میں کوئی سمجھوتا طے نہیں ہو پایا، ناہی وہ معاملے جو موجودہ ایجنڈے کا حصہ تھے وہ شامل ہوسکے۔ اس سلسلے میں بعض ذرائع ابلاغ کی جانب سے پیش کردہ رپورٹیں بے بنیاد ہیں‘‘۔