اسرائیل غزہ میں انسانی امداد کی ترسیل دوگنی کرے ورنہ فوجی امداد خطرے میں پڑ سکتی ہے: امریکہ

امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن، فائل فوٹو

  • اسرائیل غزہ میں انسانی ہمدردی کی صورتحال بہتر کرے یا اپنی فوجی امداد کو خطرے میں ڈالے : امریکی وزرا بلنکن اور آسٹن۔
  • اسرائیل تیس دن کے اندر مخصوص اقدامات کرے۔ امریکی انتظامیہ
  • امریکی وزرا بلنکن اور آسٹن کی اسرائیل عہدے داروں کے لئے وارننگ۔
  • امریکہ غزہ میں انسانی ہمدردی کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر فکر مند ہے
  • بائیڈن نے اسرائیل کی جانب سے امداد بلاک کرنے کے باوجود فوجی امداد جاری رکھی ہے ۔

امریکی عہدے داروں نے بتایا ہے کہ امریکہ نے اسرائیل سے کہا ہے کہ وہ اگلے ماہ تک غزہ میں انسانی ہمدردی کی صورتحال کو بہتر کرنے کے لیے اقدامات کرے ورنہ امریکی فوجی امداد پر ممکنہ پابندیوں کا سامنا کرے ۔ یہ ایک سال میں جب سے حماس نے اسرائیل کے ساتھ جنگ شروع کی ہے ، ایسی سخت ترین وارننگ ہے ۔

امریکی عہدے داروں نے منگل کو کہا کہ امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن اور وزیردفاع لائڈ آسٹن نے اتوار کو اسرائیلی عہدے داروں کو ایک خط لکھا ہے جس میں مطالبہ کیا گیا کہ وہ شمالی غزہ میں اسرائیل کے نئے حملوں کے دوران فلسطینی محصور علاقے میں بگڑتی ہوئی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے ۔

خط میں جس کو سب سے پہلے اسرائیلی نیوز 12 نے رپورٹ کیا تھا کہا گیا کہ ایسا کرنے میں ناکامی امریکی پالیسی پر اثر انداز ہو سکتی ہے ۔

امریکی ویب سائٹ ایکسیوس(Axios) کے رپورٹر کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر پوسٹ کی گئی خط کی ایک کاپی میں کہا گیا "ہمیں خاص طور پر تشویش ہے کہ اسرائیلی حکومت کے حالیہ اقدامات ... غزہ کے حالات کو تیزی سے بگاڑ رہے ہیں۔"

غزہ میں فلسطینی خوراک کی تقسیم کے دوران ، فائل فوٹو

خط میں کیا کہا گیا ہے؟

خط میں تجارتی درآمدات پر عائد پابندیوں سمیت اسرائیل کی عائد کردہ پابندیوں، شمالی اور جنوبی غزہ کے درمیان بیشتر انسانی ہمدردی کی امداد کی نقل و حمل سے انکار، اور غزہ میں داخل ھونے والے سامان پر " بھاری اور ضرورت سے زیادہ" پابندیوں کا حوالہ دیا گیا ہے۔

خط میں ان مخصوص اقدامات کا خاکہ پیش کیا گیا ہے جو اسرائیل کو 30 دنوں کے اندر اٹھانا ہوں گے۔ ان میں روزانہ کم از کم 350 ٹرکوں کو غزہ میں داخل ہونے کے قابل بنانا، امداد کی ترسیل کی اجازت دینے کے لیے لڑائی میں وقفے کرنا اور جب کسی کارروائی کی ضرورت نہ ہو تو فلسطینی شہریوں کو جاری کیے گئے انخلاء کے احکامات کو واپس لینا شامل ہیں۔

اقدامات پر عمل نہ کرنے کے اثرات

خط میں کہا گیا ہے کہ "ان اقدامات پر عمل درآمد اور ان کو مستقل بر قرار رکھنےکے اظہار میں ناکامی کا امریکی پالیسی امریکی پالیسی اور متعلقہ امریکی قانون پر اثر پڑ سکتا ہے۔"

SEE ALSO: امریکہ نے ایک سال میں اسرائیل کی فوجی امداد پر17 ارب 90 کروڑ ڈالر خرچ کیے: رپورٹ

خط میں فارن اسسٹنس ایکٹ کے سیکشن 620 آئی (620i) کا حوالہ دیا گیا ، جو ان ملکوں کی فوجی امداد پر پابندی لگاتا ہے جو امریکی انسانی امداد کی فراہمی میں رکاوٹ بنتے ہیں۔

خط میں امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے فروری میں جاری کئے گئے نیشنل سیکیورٹی میمورنڈم کا بھی حوالہ دیا گیا جو محکمہ خارجہ سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ اس بارے میں کانگریس کو رپورٹ کرے کہ آیا اسے اسرائیل کی اس حوالے سے قابل اعتماد یقین دہانیاں ملی ہیں کہ وہ امریکی ہتھیاروں کا استعمال کرتے وقت بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی نہیں کرتا ہے۔

کیا یہ خط اسرائیل کے لیے کوئی دھمکی ہے؟

وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے کہا کہ خط کا مقصد " دھمکی نہیں ہےا" لیکن اس میں غزہ میں انسانی امداد میں اضافے کی ہنگامی ضرورت کا اعادہ کیا گیاہے۔

کربی نے اس خط کے بارے میں وضاحت کیے بغیر کہا، ’’ہمیں لگتا ہے کہ وہ (اسرائیلی) اسے سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔‘‘

امریکی قومی سلامتی کے مشیر جان کربی ، فائل فوٹو

اسرائیلی رد عمل

واشنگٹن میں اسرائیلی سفارت خانے نے اس پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔

غزہ جنگ شروع ہونے کے بعد سے یہ خط وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کی حکومت کے لیے اب تک کا واضح ترین الٹی میٹم ہے، جس سے اسرائیل کے لیے واشنگٹن کی حمایت میں تبدیلی کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔

اسرائیل کو بار بار دیے گئے انتباہ

واشنگٹن نے سات اکتوبر 2023 کے جنوبی اسرائیل پر فلسطینی عسکریت پسند حملے کے بعد حماس کے خلاف جنگ میں اسرائیل پر بارہا زور دیا ہے کہ وہ غزہ میں انسانی صورت حال کو بہتر کرے۔

بائیڈن حکومت نے اپنے انتباہ نظر انداز کیے جانے کے باوجود اسرائیل کے لیے اربوں ڈالر کی امریکی امداد پر پابندیاں عائد کرنے سے انکار کیا ہے۔

اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ سرنگوں اور غزہ کی آبادی میں چھپے حماس عسکریت پسندوں کو جڑ سے اکھاڑنے کی کارروائیاں کرتے ہوئے بین الااقوامی قانون پر کار بند ہے۔

امریکی حکومت کی جانب سے جہاں اسرائیل پر تنقید کی گئی ہے وہیں توازن کے طور پر اسرائیل کےلیے عسکری حمایت بھی دکھائی دیتی ہے۔ جس دن یہ خط تحریر کیا گیا اسی روز اتوار کو واشنگٹن نے کہا کہ وہ امریکی فوجی اور جدید "اینٹی میزائل تھاڈ "اسرائیل بھیجے گا۔

محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے کہا کہ وزیر خارجہ بلنکن نے اپریل میں بھی ایک خط بھیجا تھا جس میں غزہ میں امداد کی ترسیل کے لیے اسرائیل کی جانب سے بہتر سہولیات کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

صدر بائیڈن نے بھی اپریل میں تنبیہ کی تھی کہ امریکہ کی پالیسی کا تعین اسرائیل کی غزہ میں کارروائیوں کی بنیاد پر کیا جائے گا۔

ملر نے کہا کہ اس وقت اسرائیل نے کچھ تبدیلیاں کی تھیں جن کے تحت غزہ میں روزانہ تین سو سے چار سو امدادی ٹرک داخل ہوئے ۔ لیکن اس کے بعد سے ان ٹرکوں کی تعداد میں پچاس فیصد کمی آئی ہے۔

ترجمان نے کہا، ہم تبدیلیاں دیکھنے کے لیے تیس دن تک انتظار کرنا نہیں چاہتےہیں، بلکہ فوری طور پرایسا ہو۔

شہری نقصان

اسرائیل نے شمالی غزہ میں کارروائیوں کو وسیع کردیاہے جبکہوہاںمیں انسانی امداد تک رسائی اور شہریوں کی خوراک، پانی اور ادویات تک رسائی کے بارے میں خدشات پائے جاتے ہیں۔

خبر رساں ادارے رائٹرز نے اس سے قبل رواں ماہ کے آغاز میں رپورٹ دی تھی کہ اسرائیل کی جانب سے نئے کستم قوائد متعارف کرانے کے بعد سے خوراک کی فراہمی میں تیزی سے کمی واقع ہوئی ہے۔ کاروباری حلقوں کی طرف سے امداد کی ترسیل بھی کم کی جارہی ہے۔

خط میں تجویز کیا گیا ہے کہ امریکہ کی طرف سے شہریوں کو نقصان پہنچانے والے واقعات پر بات چیت اور اس مسئلے کو اٹھانے کے لیے ایک نیا چینل کھولا جائے۔

ملر نے اس تجویز کی وضاحت کرنے سے انکار کردیا لیکن کہا کہ اسرائیل شہریوں کو نقصان سے بچانے کے لیے کافی اقدامات نہیں کر رہا۔

محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہاکہ اس بات کو سمجھنے کے لیے دور جانے کی ضرورت نہیں، اس ہفتے کے اختتام پر ہونے والے خوفناک واقعات کو دیکھنا کافی ہے۔

ترجمان اس اسرائیلی میزائل حملے کا حوالہ دے رہے تھے جس کو ویڈیو پر ریکارڈ کیا گیا تھا۔ اس ویڈیو کی آزادانہ توثیق نہیں ہو سکی جس میں ایک اسپتال کے خیمے میں بظاہر فلسطینی زندہ جلتے دکھائے گئے ہیں۔

اسرائیلی فوج نے اپنے ردعمل میں کہا ہےکہ اس نے اسپتال کے اندر ایک کمانڈ سنٹر سے کارروائیاں کرنے والے عسکریت پسندوں کو نشانہ بنایا تھا۔ فوج نے حماس پر الزام لگایا کہ وہ سویلین تنصیبات کو عسکری مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہے۔ حماس نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔

اس سے قبل بلنکن نے اس سال نے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ اسرائیل نے امریکی ہتھیاروں کو استعمال کرتے ہوئے بین الا اقوامی انسانی ہمدردی کے قانون کی خلاف ورزی کی ہو۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے غزہ میں انسانی امداد پہنچانے کی کوششوں میں مکمل طور پر تعاون نہیں کیا تھا۔ تاہم بلنکن کا کہنا تھا کہ اس سے امریکی قانون کی خلاف ورزی نہیں ہوئی تھی۔

اس رپورٹ کا مواد رائٹرز سے لیا گیا ہے۔