فائرنگ کرنے والا اہلکار بھی اس میں مارا گیا اور اس کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ ان دنوں نفیساتی دباؤ اور اضطراب کا شکار ہونے کی وجہ سے زیر علاج تھا۔
امریکہ کی ریاست ٹیکساس میں ایک فوجی اڈے "فورٹ ہُڈ" میں ایک فوجی نے فائرنگ کرکے تین اہلکاروں کو ہلاک اور 16 افراد کو زخمی کردیا۔
بیس کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل مارک ملی نے بتایا کہ جیسے ہی ایک فوجی افسر حملہ آور کو پکڑنے کے لیے آگے بڑھا تو فائرنگ کرنے والے اہلکار نے خود کو بھی نیم خودکار پستول سے گولی مارلی۔
ملی کا کہنا تھا کہ اس واقعے کے محرکات تاحال معلوم نہیں ہوسکے ہیں لیکن حکام کا ماننا ہے کہ یہ دہشت گردانہ کارروائی نہیں تھی۔ تاہم اب تک کی دستیاب معلومات سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ حملہ آور نے یہ کارروائی ایک سفاکانہ عزم کے ساتھ کی۔
"حملہ آور یونٹس کی عمارتوں میں سے ایک میں داخل ہوا، فائرنگ کی، گاڑی پر سوار ہوا اور پھر وہاں سے فائرنگ کی، گاڑی سے نکل کر ایک اور عمارت میں داخل ہوا اور وہاں بھی فائر کیے جس کے بعد قانون نافذ کرنے والے مقامی اہلکاروں نے اسے الجھا لیا۔"
ملی نے بتایا کہ فائرنگ کرنے والا اہلکار 2011 میں چار ماہ تک عراق کی جنگ میں تعینات رہ چکا تھا۔ ان کے بقول وہ نفیساتی دباؤ اور اضطراب کا شکار ہونے کی وجہ سے ان دنوں زیر علاج تھا۔
صدر براک اوباما نے شکاگو میں اس حملے کے بارے میں بات کرتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا اور زخمی ہونے والوں کے خاندانوں سے اظہار ہمدردی بھی کیا۔ اُنھوں نے کہا کہ اس واقعے کی تہہ تک پہنچا جائے گا۔
صدر اوباما کا کہنا تھا کہ فورٹ ہڈ کے لوگوں نے آزادی کے لیے بڑی قربانیاں دی ہیں۔
وسیع رقبے پر پہلے اس فوجی اڈے پر فائرنگ کی خبر سب سے پہلے سماجی رابطوں کی ویب سائیٹس کے ذریعے منظر عام پر آئی۔
فائرنگ کی خبر ملتے ہی ٹیلی ویژن پر دکھائے جانے والے مناظر کے مطابق ایک ہیلی کاپٹر فوجی اڈے پر اُڑتے ہوئے دیکھا گیا جو حملہ آور کو تلاش کر رہا تھا۔ قریب ہی پولیس بھی فوری طور پر فورٹ ہڈ اڈے پر پہنچ گئی۔
2009 میں بھی اسی فوجی اڈے پر فائرنگ کا ایک واقعہ پیش آیا تھا جس میں 13 افراد ہلاک اور 30 سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔
اس واقعے میں حملہ آور میجر ندال حسن کے خلاف فوجی پولیس نے اسے زخمی کر دیا تھا جس سے بعد ازاں اس کا نچلا دھڑ مفلوج ہو گیا۔ گزشتہ سال اس پر فرد جرم عائد کرتے ہوئے عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
بیس کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل مارک ملی نے بتایا کہ جیسے ہی ایک فوجی افسر حملہ آور کو پکڑنے کے لیے آگے بڑھا تو فائرنگ کرنے والے اہلکار نے خود کو بھی نیم خودکار پستول سے گولی مارلی۔
ملی کا کہنا تھا کہ اس واقعے کے محرکات تاحال معلوم نہیں ہوسکے ہیں لیکن حکام کا ماننا ہے کہ یہ دہشت گردانہ کارروائی نہیں تھی۔ تاہم اب تک کی دستیاب معلومات سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ حملہ آور نے یہ کارروائی ایک سفاکانہ عزم کے ساتھ کی۔
"حملہ آور یونٹس کی عمارتوں میں سے ایک میں داخل ہوا، فائرنگ کی، گاڑی پر سوار ہوا اور پھر وہاں سے فائرنگ کی، گاڑی سے نکل کر ایک اور عمارت میں داخل ہوا اور وہاں بھی فائر کیے جس کے بعد قانون نافذ کرنے والے مقامی اہلکاروں نے اسے الجھا لیا۔"
ملی نے بتایا کہ فائرنگ کرنے والا اہلکار 2011 میں چار ماہ تک عراق کی جنگ میں تعینات رہ چکا تھا۔ ان کے بقول وہ نفیساتی دباؤ اور اضطراب کا شکار ہونے کی وجہ سے ان دنوں زیر علاج تھا۔
صدر براک اوباما نے شکاگو میں اس حملے کے بارے میں بات کرتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا اور زخمی ہونے والوں کے خاندانوں سے اظہار ہمدردی بھی کیا۔ اُنھوں نے کہا کہ اس واقعے کی تہہ تک پہنچا جائے گا۔
صدر اوباما کا کہنا تھا کہ فورٹ ہڈ کے لوگوں نے آزادی کے لیے بڑی قربانیاں دی ہیں۔
وسیع رقبے پر پہلے اس فوجی اڈے پر فائرنگ کی خبر سب سے پہلے سماجی رابطوں کی ویب سائیٹس کے ذریعے منظر عام پر آئی۔
فائرنگ کی خبر ملتے ہی ٹیلی ویژن پر دکھائے جانے والے مناظر کے مطابق ایک ہیلی کاپٹر فوجی اڈے پر اُڑتے ہوئے دیکھا گیا جو حملہ آور کو تلاش کر رہا تھا۔ قریب ہی پولیس بھی فوری طور پر فورٹ ہڈ اڈے پر پہنچ گئی۔
2009 میں بھی اسی فوجی اڈے پر فائرنگ کا ایک واقعہ پیش آیا تھا جس میں 13 افراد ہلاک اور 30 سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔
اس واقعے میں حملہ آور میجر ندال حسن کے خلاف فوجی پولیس نے اسے زخمی کر دیا تھا جس سے بعد ازاں اس کا نچلا دھڑ مفلوج ہو گیا۔ گزشتہ سال اس پر فرد جرم عائد کرتے ہوئے عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔