واشنگٹن —
امریکی محکمۂ دفاع نے گزشتہ سال دارالحکومت واشنگٹن میں قائم بحری فوج کے ایک اڈے پر فائرنگ کے واقعے کی تحقیقاتی رپورٹ جاری کردی ہے۔
منگل کو جاری کی جانے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر حکام نے فائرنگ کرنے والے کانٹریکٹر کو 'سکیورٹی کلیئرنس' دینے سے قبل اس کے ماضی کی ٹھیک سے جانچ پڑتال کی ہوتی تو اس حادثے سے بچا جاسکتا تھا۔
خیال رہے کہ امریکی بحری افواج کے لیے کانٹریکٹ پر کام کرنے والے ایک ملازم ایرن ایلکس نے گزشتہ سال 16 ستمبر کو 'واشنگٹن نیول بیس' میں داخل ہونے کے بعد فائرنگ کرکے 12 افراد کو ہلاک کردیا تھا۔
بعد ازاں حملہ آور پولیس کی جوابی کاروائی میں مارا گیا تھا۔
فائرنگ کے واقعے کے بعد امریکی وزیرِ خارجہ چک ہیگل نے حادثے کی مختلف سطحوں پر تحقیقات کا حکم دیا تھا جن میں سے امریکی بحریہ کی جانب سے کی جانے والی تحقیقات کے نتائج منگل کو جاری کیے گئے ہیں۔
محکمۂ دفاع 'پینٹاگون' کی عمارت میں صحافیوں کو تحقیقاتی رپورٹ پر بریفنگ دیتے ہوئے چک ہیگل نے بتایا کہ واقعے کے بعد کی جانے والی دو مختلف تحقیقات میں فوجی مراکز کی سکیورٹی اور سرکاری ملازمین کے ماضی کی چھان بین سے متعلق مروجہ طریقہ کار میں "سنگین خامیوں" کا انکشاف ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان خامیوں کے نتیجے میں کسی سرکاری ملازم، کانٹریکٹر اور یا فوجی کی جانب سے اپنے ادارے یا ساتھیوں کو نقصان پہنچانے کے امکان کا اندازہ لگانے اور اس پر بروقت کاروائی کی حکومتی صلاحیت پر سوالیہ نشان کھڑے ہوگئے ہیں۔
تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق حملہ آور ایرن ایلکس کو بھرتی کرنے والی نجی سکیورٹی کمپنی 'دی ایکسپرٹس' کی انتظامیہ ایلکس کے "پرتشدد ماضی " سے واقف تھی اور اسے اندازہ تھا کہ وہ مستقبل میں اپنے آس پاس والوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
لیکن، تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق، کمپنی نے یہ معلومات حکومت سے چھپائیں جس کے نتیجے میں حکام ایرن ایلکس کی جانب سے کسی ممکنہ حملے کا خطرہ بھانپنے میں ناکام رہے۔
امریکی وزیرِ دفاع نے بتایا کہ تحقیقاتی رپورٹ کے منظرِ عام پر آنے کے بعد وفاقی حکومت کی جانب سے 'سکیورٹی کلیئرنس' پانے والے تمام سول اور فوجی ملازمین کی از سرِ نو جانچ پڑتال کی جائے گی اور اس مشق سے حاصل ہونے والی معلومات کے جائزے کے لیے ایک نیا شعبہ قائم کیا جائے گا۔
چک ہیگل نے کہا کہ 'پینٹاگون' محکمۂ دفاع کے خفیہ سکیورٹی کلیئرنس کےحامل ملازمین کی تعداد میں 10 فی صد کمی کے علاوہ ملازمین کے ماضی کی جانچ پڑتال کسی نجی کمپنی سے کرانے کے بجائے خود کرنے کی تجاویز پر بھی غور کر رہا ہے۔
منگل کو جاری کی جانے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر حکام نے فائرنگ کرنے والے کانٹریکٹر کو 'سکیورٹی کلیئرنس' دینے سے قبل اس کے ماضی کی ٹھیک سے جانچ پڑتال کی ہوتی تو اس حادثے سے بچا جاسکتا تھا۔
خیال رہے کہ امریکی بحری افواج کے لیے کانٹریکٹ پر کام کرنے والے ایک ملازم ایرن ایلکس نے گزشتہ سال 16 ستمبر کو 'واشنگٹن نیول بیس' میں داخل ہونے کے بعد فائرنگ کرکے 12 افراد کو ہلاک کردیا تھا۔
بعد ازاں حملہ آور پولیس کی جوابی کاروائی میں مارا گیا تھا۔
فائرنگ کے واقعے کے بعد امریکی وزیرِ خارجہ چک ہیگل نے حادثے کی مختلف سطحوں پر تحقیقات کا حکم دیا تھا جن میں سے امریکی بحریہ کی جانب سے کی جانے والی تحقیقات کے نتائج منگل کو جاری کیے گئے ہیں۔
محکمۂ دفاع 'پینٹاگون' کی عمارت میں صحافیوں کو تحقیقاتی رپورٹ پر بریفنگ دیتے ہوئے چک ہیگل نے بتایا کہ واقعے کے بعد کی جانے والی دو مختلف تحقیقات میں فوجی مراکز کی سکیورٹی اور سرکاری ملازمین کے ماضی کی چھان بین سے متعلق مروجہ طریقہ کار میں "سنگین خامیوں" کا انکشاف ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان خامیوں کے نتیجے میں کسی سرکاری ملازم، کانٹریکٹر اور یا فوجی کی جانب سے اپنے ادارے یا ساتھیوں کو نقصان پہنچانے کے امکان کا اندازہ لگانے اور اس پر بروقت کاروائی کی حکومتی صلاحیت پر سوالیہ نشان کھڑے ہوگئے ہیں۔
تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق حملہ آور ایرن ایلکس کو بھرتی کرنے والی نجی سکیورٹی کمپنی 'دی ایکسپرٹس' کی انتظامیہ ایلکس کے "پرتشدد ماضی " سے واقف تھی اور اسے اندازہ تھا کہ وہ مستقبل میں اپنے آس پاس والوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
لیکن، تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق، کمپنی نے یہ معلومات حکومت سے چھپائیں جس کے نتیجے میں حکام ایرن ایلکس کی جانب سے کسی ممکنہ حملے کا خطرہ بھانپنے میں ناکام رہے۔
امریکی وزیرِ دفاع نے بتایا کہ تحقیقاتی رپورٹ کے منظرِ عام پر آنے کے بعد وفاقی حکومت کی جانب سے 'سکیورٹی کلیئرنس' پانے والے تمام سول اور فوجی ملازمین کی از سرِ نو جانچ پڑتال کی جائے گی اور اس مشق سے حاصل ہونے والی معلومات کے جائزے کے لیے ایک نیا شعبہ قائم کیا جائے گا۔
چک ہیگل نے کہا کہ 'پینٹاگون' محکمۂ دفاع کے خفیہ سکیورٹی کلیئرنس کےحامل ملازمین کی تعداد میں 10 فی صد کمی کے علاوہ ملازمین کے ماضی کی جانچ پڑتال کسی نجی کمپنی سے کرانے کے بجائے خود کرنے کی تجاویز پر بھی غور کر رہا ہے۔