امریکی محکمۂ خزانہ نے طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف پابندیوں سے استثنیٰ کے حالیہ اعلان میں توسیع کرتے ہوئے جمعہ کو ایک نیا جنرل لائسنس جاری کیا ہے جس کے تحت افغانستان کے تمام سرکاری اداروں کے ساتھ تجارتی لین دین کی اجازت دی گئی ہے۔
محکمۂ خزانہ کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ نیا لائسنس حالیہ مہینوں میں جاری ہونے والا ساتواں لائسنس ہے ''جو افغانستان اور اس کے سرکاری اداروں سے منسلک تمام ٹرانزیکشنز کی اجازت دیتا ہے جو دوسری صورت میں امریکی پابندیوں کی وجہ سے ممنوع ہوں گی۔''
البتہ یہ اب بھی طالبان، حقانی نیٹ ورک، ان سے منسلک اداروں اور محکمۂ خزانہ کی جانب سے ممنوعہ افراد کو مالیاتی منتقلی پر پابندی برقرار رکھتا ہے۔
جنرل لائسنس کے اعلان کے موقع پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے ایک سینئر انتظامی عہدیدار نے صحافیوں کو بتایا کہ ''آج بہت سے افغان شہری بھوک اور سردی کا سامنا کر رہے ہیں، لہذٰا ہم سب کو تیزی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔''
امریکہ کی جانب سے یہ اقدام محکمۂ خزانہ اور افغانستان میں کاروبار کرنے والے نجی شعبے کے افراد کے درمیان مذاکرات کے بعد سامنے آیا ہے۔یہ لائسنس حالیہ مہینوں میں غیرسرکاری تنظیموں کو دی گئی پابندیوں سے استثنیٰ کا تسلسل ہے۔
دوسری جانب نائب سیکریٹری خزانہ وولی ایڈیمو نے ایک بیان میں کہا ہے کہ''آج کا ہمارا یہ عمل تسلیم کرتا ہے کہ بحران میں ضروری ہے کہ ہم ان خدشات کو دور کریں کہ پابندیاں تجارتی سرگرمیوں کو روکتی ہیں۔ البتہ ہم طالبان، حقانی نیٹ ورک اور دیگر بدنیت عناصر کو مالیاتی وسائل سے دُور رکھیں گے۔'
واضح رہے کہ طالبان کے خلاف امریکی پابندیاں 1990 کی دہائی میں پہلی مرتبہ ان کے اقتدار میں آنے سے لے کر اب تک موجود ہیں۔ طالبان اور حقانی نیٹ ورک دونوں کو محکمۂ خزانہ کی جانب سے عالمی دہشت گرد قرار دیا گیا ہے۔
مزید پڑھیے افغانستان کےمنجمد اثاثے امریکہ کے لیے استعمال کرنا کیسے ممکن ہوا؟اگست میں افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد سے محکمۂ خزانہ نے متعدد پابندیوں سے استثنیٰ دیا تھا تاکہ افغانستان اپنی تباہ حال معیشت اور انسانی بحران سے نمٹ سکے۔
دوسری جانب اس بات کا اعتراف بھی بڑھتا جا رہا ہے کہ افغانستان کا انسانی بحران ایک ایسے اقتصادی بحران سے جڑا ہوا ہے جس میں امریکہ کی جانب سے افغان حکومت کے سات ارب ڈالر سے زائد کے اثاثے منجمد کرنے سے اضافہ ہوا۔
انتظامیہ کے سینئر عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ایک چیز جو ہم نہایت اہم سمجھتے ہیں وہ یہ ہے کہ معیشت چلتی رہے۔
خیال رہے کہ امریکہ صدر جوبائیڈن نے حال ہی میں ایک صدارتی حکم نامہ جاری کیا تھا جس کے تحت افغانستان کے منجمد اثاثوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک حصہ جو ساڑھے تین ارب ڈالر کا ہے وہ 11 ستمبر 2001 کے متاثرین کے اہل خانہ کے لیے ہے جب کہ دوسرا ساڑھے 3 ارب ڈالر کا حصہ افغانستان کے لیے انسانی بنیادوں پر فنڈ کے لیےہے۔
امریکہ کے اس اقدام پر افغان طالبان اور دیگر طبقات نے مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ رقم افغان عوام کی ہے اور اس پر اُنہی کا حق ہے۔
البتہ امریکی حکام کا موؐقف ہے کہ فنڈز کی نائن الیون متاثرین کو منتقلی کا حتمی فیصلہ عدالتی کارروائی سے مشروط ہو گا۔