روس کی جانب سے مشرقی یوکرین کے علاقوں ڈونیسک اور لوہانسک کو آزاد علاقے تسلیم کرنے کے اعلان پر امریکہ ماسکو پہ اضافی پابندیاں لگانے کی تیاری کر رہا ہے۔ نئی پابندیوں کا اعلان منگل کے روز متوقع ہے۔ صدر بائیڈن نے مذکورہ علاقوں میں امریکی شہریوں کو سرمایہ کاری سے روکنے کے حکم نامے پر بھی دستخط کر دیے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری جین ساکی نے پیر کو ایک بیان میں کہا تھا کہ روس کی جانب سے اس اقدام کی توقع کی جا رہی تھی اور اس پر فوری طور پر ردعمل دیا جائے گا۔
روسی صدر پوٹن کی جانب سے مشرقی یوکرین کے دو علاقوں کوآزاد تسلیم کرنے کے بعد مغربی ممالک کا خدشہ مزید گہرا ہو گیا ہے کہ پوٹن نے یوکرین پر حملے کا مصمم ارادہ بنا لیا ہے۔ امریکی انتظامیہ کے سینئیر عہدے دار کا کہنا ہے کہ روس کی جانب سے حملے کا بہت حد تک خطرہ ہے۔
SEE ALSO: مشرقی یوکرین کےدو علیحدگی پسند علاقوں کو آزاد ملک تسلیم کیا جائے گا، کریملن کا اعلانسینئر عہدے دار نے پیر کو وائٹ ہاؤس میں صحافیوں کو بتایا کہ پچھلے چند گھنٹوں میں ہم نے دیکھا ہے کہ روس نے ان علاقوں میں امن قائم کرنے کے بہانے سے اپنی افواج تعینات کی ہیں۔
عہدے دار کا کہنا تھا کہ صدر پوٹن کی تقریر روس کی سلامتی کے لیے نہیں بلکہ یوکرین کی سالمیت اور اس کی آزادی پر حملے کے مترادف تھی۔
امریکی عہدے دار کے بقول "پوٹن نے واضح کیا تھا کہ ہ وہ یوکرین کو تاریخی طور پر روس کا حصہ سمجھتے ہیں۔ انہوں نے یوکرین کے ساتھ تنازع کے بارے میں کئی ایسے دعوے کیے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ فوجی اقدام کا جواز تلاش کر رہے ہیں۔ یہ تقریر روسی عوام کے سامنے جنگ کا جواز پیش کرنے کے لیے تھی۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ وائٹ ہاؤس منگل کو روس پر مزید پابندیاں عائد کرے گا۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق روس کا اقدام بین الاقوامی قوانین، یوکرین کی سالمیت اور علاقائی سلامتی کی خلاف ورزی ہے، ساتھ ہی روس کی جانب سے کیے گئے بین الاقوامی معاہدوں کی بھی خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے اس بارے میں معلومات نہیں دیں کہ آیا امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن اور ان کے روسی ہم منصب سرگئی لاوروف کے درمیان اس ہفتے کے اختتام پر ہونے والی طے شدہ ملاقات ہو سکے گی یا نہیں۔ یہ ملاقات پوٹن بائیڈن ملاقات کی پیش بندی کے طور پر دیکھی جا رہی تھی۔
Your browser doesn’t support HTML5
پیر کو روسی صدر کی تقریر کے بعد امریکی صدر نے کچھ ابتدائی پابندیاں لاگو کر دیں جن کے تحت آزاد قرار دیے گئے علاقوں میں امریکوں کے لیے تجارت اور سرمایہ کاری کو ممنوع قرار دیا گیا۔ بائیڈن انتظامیہ کے مطابق اگر روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو ماسکو پر مزید سخت پابندیاں لاگو کی جائیں گی جن کی تیاری امریکہ اور اس کے یورپی اتحادی مل کر کر رہے ہیں۔
یورپی یونین نے بھی روس پر معاشی پابندیوں کا اعلان کیا ہے۔ یورپی یونین کمیشن کی صدر اُرسلا وان ڈیئر لیئن اور کونسل کے صدر چارلس مشیل نے پوٹن کی جانب سے ان علاقوں کی آزادی کو تسلیم کرنے کے اعلان کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا۔
اس سے پہلے کریملن کے مطابق پوٹن نے فرانس اور جرمنی کے رہنماؤں کو پیر کو اپنے اس فیصلے کے بارے میں آگاہ کیا تھا۔ انہوں نے اس کے بعد دستاویز پر دستخط کر کے اعلان کیا تھا کہ یہ علاقے اب یوکرین کا حصہ نہیں ہیں۔
SEE ALSO: روس نواز باغیوں کا حملہ، تنازع میں پہلی بار یوکرین کے دو فوجی ہلاکپوٹن نے پیر کو کریملن سے روس کے عوام سے ایک طویل خطاب کیا جس میں انہوں نے یورپ میں ملکوں کی سرحدوں اور نوے کی دہائی میں سوویت یونین کے ٹوٹنے سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ یوکرین کبھی بھی ایک قوم نہیں تھی اور تاریخی طور پر روس کا حصہ تھا۔
یاد رہے کہ پوٹن نے ڈیڑھ لاکھ سے زائد فوج بیلاروس اور یوکرین کے شمال، مشرق اور جنوب کی سرحد پر تعینات کر رکھی ہے۔