امریکی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا مکمل ہونے کے بعد بھی سفارت کاروں کی سیکیورٹی کے لیے لگ بھگ 650 فوجی متوقع طور پر افغانستان میں تعینات رہیں گے۔
یہ بات جمعرات کو امریکی اہلکاروں نے ایسو سی ایٹڈ پریس سے گفتگو کرتے ہوئے بتائی ہے۔
اہلکاروں کا مزید کہنا تھا کہ ساتھ ہی کابل ایئرپورٹ پر چند سو اضافی امریکی فوجی ممکنہ طور پر ستمبر تک موجود رہیں گے تاکہ عارضی طور پر ترکی کے فوجیوں کی معاونت کی جا سکے جب تک کہ وہاں باضابطہ طور پر ترکی کی سرپرستی میں سیکیورٹی کا نظام قائم نہیں ہو جاتا۔
اہلکاروں کے مطابق امریکہ کو توقع ہے کہ مجموعی طور پر چار جولائی یا پھر چند ہی دن بعد تک امریکی اور اتحادی عسکری کمان اس کی قیادت اور زیادہ تر فوجی ملک سے جا چکے ہوں گے۔ جس کا حتمی تاریخ کا فیصلہ کئی ماہ قبل عسکری کمانڈر کر چکے ہیں۔
چونکہ اہلکاروں کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ انخلا سے متعلق تفصیلات دے سکیں، اس لیے انہوں نے یہ بات نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر امریکی خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کو بتائی ہے۔
صدر جو بائیڈن کی جانب سے فوجی انخلا کی تاریخ 11 ستمبر طے ہے۔ جب کہ حالیہ مہینوں کے دوران 4000 سے زائد فوجیوں کا انخلا مکمل ہوچکا ہے۔ ایسے میں لڑائی کے میدان میں طالبان نے کئی مقامات پر قبضہ کر لیا ہے، جس سے اس بات کا ڈر باقی ہے کہ افغان حکومت اور اس کی فوج کو چند ماہ کے اندر شکست ہو سکتی ہے۔
SEE ALSO: صدر غنی کیا چاہیں گے؟ صدر بائیڈن کیا دے سکتے ہیں؟ آج اہم ملاقاتاہلکاروں نے بارہا اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ افغانستان میں امریکہ کا کوئی بھی سفارتی عملہ تعینات رکھنے کے لیے لازم ہوگا کہ حامد کرزئی بین الاقوامی ہوائی اڈے کی سیکیورٹی برقرار رکھی جائے۔
اگر اضافی فوج کو آئندہ چند ماہ تک افغانستان میں رکھنے کا فیصلہ کیا جاتا ہے تو موسم خزاں سے پہلے امریکہ کی طویل ترین لڑائی کے خاتمے کے بائیڈن انتظامیہ کے اعلان کو حقیقت کا روپ دینا مشکل تر ہو جائے گا۔
امریکی قومی سلامتی کے چیلنجوں کے حوالے سے تشدد کا شکار یہ ملک مرکزی چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے، حالانکہ وائٹ ہاؤس اس بات کے لیے کوشاں ہے کہ اس 20 برس طویل لڑائی کو اب بند ہو جانا چاہیے۔ تاکہ چین اور روس سے نمٹا جا سکے۔
جمعے کے روز افغان صدر اشرف غنی اور قومی مفاہمتی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ وائٹ ہاؤس میں صدر بائیڈن سے ملاقات کرنے والے ہیں۔ پینٹاگان کے اعلان کے مطابق دونوں امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن اور انتظامیہ کے دیگر عہدے داروں سے بھی ملاقات کریں گے۔
جولائی کے اوائل تک زیادہ تر فوج کو واپس بلانے کا معاملہ پیچیدہ ہو گیا تھا۔ جب امریکی سفارت خانہ میں کرونا پھیل گیا اور ساتھ ہی افغان مترجم اور دیگر افراد کو ملک سے باہر بھیجنے کا معاملہ درپیش تھا۔ جنہوں نے افغانستان میں امریکہ کی معاونت کی تھی۔
اہلکاروں نے بتایا ہے کہ افغانستان میں تعینات امریکی کمانڈرز اور نیٹو اتحادی لاجسٹک کی ابتدائی مشکلات پر قابو پا چکے ہیں۔ جس سے انخلا کا عمل متاثر ہونے کا خدشہ تھا۔ لیکن پھر بھی انھوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر ایئرپورٹ کی سیکیورٹی کا منصوبہ برقرار نہیں رہتا یا پھر اس ضمن میں کسی قسم کی نادانستہ رکاوٹ پیدا ہوتی ہے تو امریکی فوج کے انخلا کے آخری مراحل میں دشواری کا سامنا ہوسکتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
گزشتہ ہفتے تک کابل کے شمال میں واقع بگرام ایئر فیلڈ پر امریکی فوج کی تعیناتی میں توسیع کا معاملہ زیر غور رہا، لیکن اہلکاروں نے بتایا کہ آئندہ چند دنوں کے اندر فضائی اڈے پر امریکی موجودگی ختم کر دی جائے گی۔
افغانستان میں لگ بھگ 650 امریکی فوجیوں کی موجودگی جو ممکنہ طور پر مستقل بنیادوں پر ہو گی۔ ان کا کام امریکی سفارت خانے کو سیکیورٹی فراہم کرنے کے علاوہ ایئرپورٹ کی سیکیورٹی بحال رکھنے میں معاونت فراہم کرنا ہوگا۔
اہلکاروں نے بتایا کہ امریکہ اس پر رضامند ہے کہ کابل ایئرپورٹ پر 'کاؤنٹر راکٹ، آرٹلری، مورٹر سسٹم' اور اسے چلانے کے لیے درکار فوجی تعینات رہیں، جو ترکی کے ساتھ ہونے والے سمجھوتے کا حصہ ہیں۔ اس کے علاوہ امریکہ چاہتا ہے کہ ایئرپورٹ پر ہیلی کاپٹر سپورٹ کا فضائی بھی عملہ تعینات رہے۔
اہلکاروں کے مطابق ترکی کافی حد تک تیار ہے کہ وہ ایئرپورٹ کی سیکیورٹی سنبھالے گا۔ جس حد تک امریکی افواج اس کی اجازت دیں گے۔
اس ضمن میں اسی ہفتے انقرہ میں ایک اجلاس ہوگا جس میں امریکی اور ترک عہدے دار شرکت کریں گے۔