امریکہ نے طے شدہ پالیسی کے مطابق افغانستان میں تعینات فوجی اہلکاروں کی تعداد کم کر کے 2500 کر دی ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ سال نومبر میں افغانستان میں تعینات فورسز کی تعداد میں مزید کمی کا اعلان کیا تھا۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات کو مختصر بیان میں کہا کہ افغانستان میں امریکہ کی فورسز کے اہلکاروں کی تعداد گزشتہ 19 سال میں کم ترین سطح پر آ گئی ہے۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق امریکہ کی فوج نے طے شدہ پالیسی کے تحت جمعے کو افغانستان میں تعینات اہلکاروں کی تعداد کم کرکے 2500 کر دی ہے۔ امریکی فورسز کی تعداد میں یہ کمی کانگریس کی عائد کردہ پابندی کے خلاف ہے۔
صدر ٹرمپ نے بیان میں افغانستان میں دو دہائیوں سے جاری جنگ اور امریکی فوج کے مکمل انخلا کے حوالے سے کہا کہ وہ ہمیشہ سے نہ ختم ہونے والی جنگوں کو روکنے کے پُر عزم رہے ہیں۔
دوسری جانب دو ہفتے قبل امریکہ کی کانگریس نے نیشنل ڈیفنس اتھرائزیشن ایکٹ (این ڈی اے اے) منظور کیا تھا جس کے تحت پینٹاگون کو فورسز کی تعداد 4000 یا یکم جنوری کو افغانستان میں موجود اہلکاروں کی تعداد کو کم کرنے کے لیے رواں سال یا گزشتہ سال کے بجٹ سے رقم خرچ کرنے سے روک دیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ امریکی کانگریس نے اس ایکٹ کی منظوری یکم جنوری کو ہی دی تھی۔ بعد ازاں صدر ٹرمپ نے اس کو ویٹو کر دیا تھا۔ لیکن امریکہ کی کانگریس کے اویان نمائندگان اور سینیٹ نے صدر کے ویٹو کے ختم کر دیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
امریکہ کے محکمۂ دفاع نے اگرچہ یہ واضح نہیں کیا کہ قانونی قدغن کے ساتھ انخلا کے عمل کو کیسے جاری رکھا جا سکتا ہے۔
'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق پینٹاگون نے کہا ہے کہ محکمۂ دفاع افغانستان سے امریکی فورسز کے انخلا پر نیشنل ڈیفنس اتھرائزینش ایکٹ 2021 کی اثر انداز ہونے والی تمام شقوں کی پابندی کرے گا۔
'امریکی فورسز کا انخلا طے شدہ پالیسی کے مطابق ہے'
بین الاقوامی امور کے تجزیہ نجم رفیق کا کہنا ہے کہ افغانستان سے فوج کے انخلا کا عمل امریکہ کی طے شدہ پالیسی کے مطابق جاری ہے۔ صدر ٹرمپ متعدد بار اس پالیسی کا پر عمل کا اعادہ کرتے رہے ہیں۔
نجم رفیق کے مطابق امریکہ میں اتفاق رائے موجود ہے کہ امریکی فورسز کو دیگر ممالک، جہاں تنازعات جاری ہیں، سے وہاں سے واپس آ جانا چاہیے۔
دوسری جانب افغانستان کی قومی سلامتی کی کونسل کے مطابق امریکی فورسز کی تعداد میں کمی سے افغانستان میں امنِ عامہ یا سلامتی کی صورتِ حال پر کوئی منفی اثر نہیں ہو گا۔
کونسل کے ترجمان رحمت اللہ اندار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ افغانستان میں جاری 95 فی صد کارروائیاں افغان سیکیورٹی فورسز ہی سر انجام دے رہی ہیں۔ اس لیے غیر ملکی فورسز میں کمی سے افغانستان کی سلامتی کی صورتِ حال کوئی منفی اثر مرتب نہیں ہو گا۔
افغان صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ افغانستان میں انسدادِ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو جاری رکھنا کابل اور بین الاقوامی برداری کے مشترکہ مفاد میں ہے۔
کابل میں یونیورسٹی کے طلبہ سے گفتگو میں صدر اشرف غنی نے افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کا ذکر کیے بغیر کہا کہ اٖفغانستان کی سیکیورٹی فورسز 40 ہزار کمانڈوز پر مشتمل ہے۔ البتہ افغانستان کو اپنی فوج کی معاونت کے لیے بین الاقوامی مدد کی ضرورت ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
تجزیہ کار نجم رفیق کے مطابق اس وقت افغان فورسز کی استعدادِ کار میں اضافہ صرف بین الاقوامی مدد سے ہی ممکن ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں اگر غیر ملکی افواج کی تعداد میں نمایاں کمی ہو جاتی ہے تو افغان فورسز کے لیے کابل مخالف قوتوں اور دیگر عسکریت پسندوں گروہوں سے نمٹنا آسان نہیں ہو گا۔
امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان گزشتہ سال 29 فروری 2020 کو معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت 14 ماہ کے دوران افغانستان میں تعینات تمام غیر ملکی فورسز کا انخلا ہونا ہے۔ جب کہ طالبان نے معاہدے میں یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ غیر ملکی فورسز پر اپنے حملے روک دیں گے۔ جب کہ القاعدہ یا کسی اور عسکری گروہ کو اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں سرگرم ہونے کی اجازت نہیں دیں گے۔
امریکہ کے نو منتخب صدر جو بائیڈن اگرچہ اس بات کا عندیہ دے چکے ہیں کہ انسدادِ دہشت گردی کے لیے کچھ فوج افغانستان میں رکھی جا سکتی ہے۔ تاکہ القاعدہ جیسی شدت پسند تنظیمیں امریکہ کے لیے خطرہ نہ بن سکیں۔
البتہ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ امریکہ میں آنے والی نئی انتظامیہ کی افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بارے میں کیا پالیسی ہوگی۔