امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل کینتھ میکنزی کا کہنا ہے کہ امریکہ، طالبان کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے تحت افغانستان میں امریکی فورسز کی تعداد 8600 کر دی گئی ہے۔
جمعرات کو واشنگٹن ڈی سی میں قائم ایک غیر سرکاری تھنک ٹینک 'ایسپن انسٹی ٹیوٹ' میں ایک مباحثے کے دوران جنرل میکنزی نے کہا کہ میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہم نے معاہدے کے تحت اپنی ذمہ داری پوری کر دی ہے۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹد پریس' کے مطابق جنرل میکنزی نے یہ عندیہ نہیں دیا ہے کہ امریکہ افغانستان سے کب اور کس رفتار کے تحت اپنی باقی ماندہ فورسز کو واپس بلائے گا۔
جنرل میکنزی کا مزید کہنا تھا کہ امریکہ نے دوحہ میں طے پانے والے معاہدے کے بعد 135 دنوں کے اندر اپنی فورسز کی تعداد کو 8600 کی سطح پر لانا تھا اور وہ اپنی فورسز کی تعداد کو کم کر کے اس سطح پر لے آئے ہیں۔
امریکہ اور طالبان کے درمیان رواں سال 29 فروری کو دوحہ میں ہونے والے معاہدے میں طے پایا تھا کہ امریکہ رواں سال جولائی کے وسط تک اپنی فورسز کو کم کرکے 8600 کی سطح پر لے آئے گا۔
امن معاہدے سے قبل افغانستان میں لگ بھگ 12 ہزار امریکی فوجی تعنیات تھے جن کی مرحلہ وار واپسی پر اتفاق ہوا تھا۔
اس معاہدے میں یہ بھی طے پایا تھا کہ اگر طالبان معاہدے کے شرائط پر پوری طرح کاربند رہتے ہیں تو امریکہ مئی 2021 تک افغانستان سے اپنی فورسز کو نکال لے گا۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ طالبان معاہدے کے تحت مئی 2021 تک افغانستان سے امریکی فورسز کا مکمل انخلا مکمل ہونا ہے۔ تاہم انہوں نے واضح کیا کہ اگرچہ امریکہ اس عزم پر قائم ہے۔ لیکن اس کا انحصار طالبان کی سنجیدگی پر ہے۔
جنرل میکنزی کے بقول امریکی فورسز کا مکمل انخلا اس وقت ہو گا جب حالات سازگار ہوں گے۔
جنرل میکنزی کا مزید کہنا تھا کہ امریکہ کے لیے یہ اطمینان ضروری ہے کہ اس کے خلاف افغانستان سے کوئی حملے نہیں ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ وہ یہ جانتے ہیں کہ طالبان، داعش کے دوست نہیں ہیں۔ لیکن انہوں نے واضح کیا کہ ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ القاعدہ کے خلاف طالبان کیا کریں گے اور ہم باتیں نہیں بلکہ عملی اقدامات دیکھنا چاہتے ہیں۔
یادر ہے کہ امریکہ، طالبان معاہدے کے تحت طالبان نے یہ ضمانت دی تھی کہ ان کے زیرِ اثر علاقوں میں کسی بھی ایسے شدت پسند گروپ کو منظم ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی جو امریکہ یا اس کے اتحادیوں کے لیے خطرہ ہو۔
جنرل میکنزی نے یہ بھی کہا کہ افغانستان میں اب بھی تشدد کے واقعات ہو رہے ہیں۔ ان کے بقول طالبان کو یہ ثابت کرنا ہو گا کہ وہ تشدد میں کمی کرنے پر تیار ہیں۔
اگرچہ امریکی جنرل کے بیان پر طالبان کی طرف سے تاحال کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔ لیکن طالبان عہدے دار قبل ازیں یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ دوحہ معاہدے پر عمل کررہے ہیں اور یہ معاہدہ طے پانے کے بعد انہوں نے غیرملکی فورسز کے خلاف اپنے حملے روک دیے تھے۔
بعض اطلاعات کے مطابق امریکی انتظامیہ طالبان سے طے شدہ تاریخ سے پہلے اپنی فورسز کے مکمل انخلا کے بارے میں مختلف آپشنز پر غور کر رہی ہے۔ ایک آپشن رواں سال نومبر کی بھی ہے جب امریکہ میں صدارتی انتخابات منعقد ہوں گے۔
تاہم امریکی صدر ٹرمپ افغانستان سے فورسز کے قبل از وقت انخلا کی کسی مقررہ تاریخ کو مسترد کرتے ہوئے جلد اور مناسب وقت پر امریکی فورسز کے انخلا کی توقع ظاہر کر چکے ہیں۔
ادھر مغربی ممالک کے دفاعی اتحاد 'نیٹو' کے سیکرٹری جنرل جینز اسٹولٹن برگ نے کہا ہے کہ نیٹو، افغانستان میں امن کوششوں کی حمایت کرتا ہے اور اب ہم بین الافغان مذاکرات شروع ہونے کے بھی بہت قریب ہیں۔
جمعرات کو برسلز میں نیٹو ممالک کے وزرائے دفاع کی ایک کانفرنس کے بعد نیوز کانفرنس کے دوران اسٹولٹن برگ نے کہا کہ وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ افغانستان میں صورتِ حال مشکل ہے۔ اب بھی تشدد اور حملے جاری ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ انہیں اب بھی افغانستان میں مستقل اور پائیدار امن کے لیے ایک طویل راستہ طے کرنا ہے۔
اسٹولٹن برگ نے مزید کہا کہ طالبان کو امریکہ کے ساتھ طے پانے والے معاہدے میں کیے جانے والے وعدوں کو پورا کرنا ہے۔
ان کے بقول امریکہ طالبان معاہدے کا ایک حصہ دنوں فریقین کی طرف سے قیدیوں کی رہائی تھی۔
افغان امور کے تجزیہ کار اور صحافی رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا ہے کہ اس وقت امریکی عہدے داروں کے بیان افغان امن عمل میں مثبت پیش رفت کا مظہر ہیں۔
ان کے بقول امریکہ کا افغانستان میں اپنی فوج کی تعداد 8600 تک لانا ایک بڑی پیش رفت ہے۔
ان کے بقول دوحہ معاہدے کے بعد اگرچہ کچھ تلخیاں بھی ہوئی اور دو بار امریکی فوج نے طالبان کے خلاف فضائی بمباری بھی کی۔ لیکن اس کے باوجود بھی دوحہ کا امن معاہدہ برقرار ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ 19 سال سے جاری جنگ کو ختم کرنے کی راہ میں رکاوٹیں تو آئیں گی۔
رحیم اللہ یوسف زئی نے کہا کہ طالبان کو بھی اپنے وعدے پورے کرنا ہوں گے۔ طالبان یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ بین الافغان مذکرات میں حصہ لیں گے۔ تو بطاہر اب طالبان اس کے لیے تیار ہیں۔
بین الافغان امن مذاکرات شروع کرنے کی راہ میں رکاوٹ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قیدیوں کا تبادلہ تھا اور ان کے بقول اس پر پیش رفت ہو رہی ہے۔
رحیم اللہ یوسف زئی کا مزید کہنا تھا کہ اب بین الافغان مذاکرات کی راہ میں کوئی مشکل حائل نہیں اور یہ بات چیت آئندہ ماہ کے آغاز میں شروع ہو سکتی ہے۔
ادھر طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ کہ طالبان نمائندوں نے ناروے کے خصوصی نمائندہ برائے افغانستان البرٹ الساس سے ویڈیو کانفرنس پر گفتگو کی اور افغانستان کی موجودہ صورتِ حال اور دوحہ معاہدے پر عمل درآمد کے بارے تبادلہ خیال کیا۔
طالبان ترجمان کے بقول ناروے کے سفارت کارنے دوحہ معاہدے اور افغان امن عمل کی حمایت کرتے ہوئے اس کے لیے ناروے کے تعاون کی یقینی دہانی بھی کرائی۔
یادر ہے کہ حال ہی میں طالبان اور افغان حکومت کے درمیان قیدیوں کی رہائی کا عمل تیز ہونے کے بعد اس بات کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ بین الافغان امن مذاکرات جلد شروع ہو سکتے ہیں اور شاید یہ مذاکرات ابتدائی طور پر دوحہ میں ہو سکتے ہیں۔ جہاں طالبان کا سیاسی دفتر واقع ہے۔