امریکی صدر براک اوباما نے جمعرات کے روز تیونیسیا کو امریکہ کا اہم غیر نیٹو اتحادی کا درجہ دینے کا اعلان کرتے ہوئے، سنہ 2011 کے ’عرب اسپرنگ‘ کی صورت حال کے پس منظر میں ملک میں جنم لینے والی جمہوری اصلاحات کو سراہا۔
یہ شمال افریقی ملک سولہویں مملکت ہے جسے امریکہ نے یہ درجہ دیا ہے۔ اس کے باعث، دونوں ملکوں کے درمیان فوجی اور مالیاتی رابطے مضبوط ہوں گے، جب کہ اُن کے مابین باہمی دفاع کا سمجھوتا موجود نہیں ہوگا۔ سنہ 1989کے بعد امریکہ نے یورپ میں قائم اپنی کلیدی ’شمالی بحر اوقیانوس دفاعی تنظیم‘ (نیٹو) کے علاقے سے باہر کے ملک کو اتحاد سے نسبت کا درجہ دیا ہے۔
مسٹر اوباما نے وائٹ ہاؤس میں تیونس کے صدر الباجي قائد السبسی سے ملاقات کی۔ امریکی سربراہ نے کہا کہ اُنھیں اس بات کی خوشی ہے کہ تیونس جمہوریت کی جانب سیاسی قدم بڑھا رہا ہے۔
تیونس کی 60 سالہ تاریخ میں، مسٹر السبسی جمہوری طور پر منتخب پہلے رہنما ہیں۔
امریکی سربراہ نے تیونس کو قلیل مدتی امداد دینے کا عہد کیا، جس سے اُس کی معاشی اصلاحات کی تکمیل ہوگی اور بے روزگاری کے انسداد میں مدد ملے گی۔
صدر السبسی نے مسٹر اوباما کو بتایا کہ دہشت گرد گروہوں کی جانب سے خطرات کے پیش نظر، تیونس کی جانب سے ترقی کی طرف قدم بڑھانے میں مشکلات حائل ہیں۔
اس سے قبل، وائٹ ہاؤس تشریف لانے پر، تیونس کے صدر محمد الباجي قائد السبسي کا خیرمقدم کیا۔ ملاقات سے اِس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ امریکہ تیونس کی جانب سے جمہوریت کے راستے پر گامزن ہونے کی جستجو کا حامی ہے۔
صدر السبسی دسمبر میں منعقد ہونے والے انتخابات کے بعد اقتدار میں آئے۔
امریکی اہل کاروں نے بتایا کہ دونوں صدور تیونس نےامریکی فوجی اور معاشی امداد میں اضافے کے معاملے پر گفتگو کی۔ تیونس کو بڑے پیمانے پر، نوجوانوں کی بے روزگاری کا مسئلہ درپیش ہے اور علاقائی عدم استحکام کے خطرات لاحق ہیں۔
سنہ 2011 میں جمہوریت کے حق میں احتجاجی مظاہروں کے دوران، طویل مدت سے صدرات کے عہدے پر براجمان، زین العابد بن علی کو اقتدار سے علیحدہ کیا گیا تھا، جس کا موجب شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں جاری عرب اسپرنگ کی لہر بنی۔
اس کے بعد سے ملک میں کامیابی کے ساتھ کئی انتخابات ہو چکے ہیں، اور تشدد کی کارروائیوں کے باوجود، ملک کی سیکولر اور اسلام پرست جماعتوں نے جاری کشیدگی کا حصہ بننے سے احتراز کیا ہے، جس کا عرب اسپرنگ سے متاثر دیگر ملکوں میں دور دورہ رہا ہے۔
جمعرات کو ’دِی واشنگٹن پوسٹ‘ میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں، صدر اوباما اور صدر السبسی نے کہا ہے کہ’تیونس اس بات کا مظاہرہ کرتا ہے کہ جمہوریت کا حصول نہ صرف ممکن ہے، بلکہ مشرقی افریقی اور مشرق وسطیٰ میں بھی یہ اتنا ہی ضروری ہے‘۔
اس میں کہا گیا ہے کہ آج کی قومی یکجہتی کی حکومت میں سیکولر اور اسلام پرست دونوں شامل ہیں، جو اس بات کی غماز ہے کہ جمہوریت اور اسلام ایک ساتھ فروغ پا سکتے ہیں۔
تیونس نے سنہ1956 میں فرانس سے آزادی حاصل کی، جس کے بعد صدر السبسی تیونس کے پہلے جمہوری طور پر منتخب صدر بنے ہیں۔ اُنھوں نے جمہوری اصلاحات جاری کرنے کا عہد کر رکھا ہے۔
مارچ میں، ملک کے ’نیشنل باردو میوزیئم‘ پر دہشت گرد حملے میں 22 افراد ہلاک ہوئے۔ اس حملے کی ذمہ داری داعش کے شدت پسندوں نے قبول کی، جس کے بعد تشویش میں اضافہ ہوا، آیا حکومت اس قابل ہے کہ وہ دہشت گرد حملوں کا مقابلہ کرسکے اور جس کے نتیجے میں ملک کی سیاحتی صنعت کو بڑا دھچکا لگا۔
بدھ کے روز، صدر السبسی نے امریکی وزیر خارجہ جان کیری سے ملاقات کی تھی۔
کیری نے کہا ہے کہ ’تیونس کی کامیابی یہ ظاہر کرتی ہے کہ مشکلات کے باوجود، جمہوری ادارے اُس وقت ہی کامیاب ہوسکتے ہیں جب اُن کی قیادت باہمت رہنماؤں کے ہاتھ میں ہو اور وہ مصالحتی انداز اپنائیں‘۔